Skip to main content
Submitted by hilal on
جدید علم فلکیات کی روسشنی میں ثبوت ہلال کا شرعی حکم۔

اَلْاِھداء میں اپنی اس حقیر کاوش ،جو امت محمدیہ ﷺ کی بھلائی اور اتحاد کے لئے کی ہے ، اس کو بطور صدقہ جاریہ اپنے والد گرامی مولانا حافظ فتح محمد نقشبندی چوراہی ، والدہ ماجدہ اطال اللہ عمرہُما، اپنے تمام اساتذہ خصوصا استاذ العلماء حضرت مولانا محمد فاضل چشتی آف میلوکہنہ، استاذ العلماء حضرت قبلہ حافظ محمد عالم محدث سیالکوٹی ، میرے پیر و مرشد پیر حضرت پروفیسر شمس المشائخ چورہ شریف ،سید منظور آصف طاہر ، میرے محسن و مربی پروفیسر حافظ عبد الرحمان تارڑ رحمت اللہ علیہم اجمعین سے منسوب کرتا ہوں جن کی تربیت سے یہ چند کلمات امت محمدیہ ﷺ کی خیر خواہی کے لئے لکھنے کے قابل ہوا۔اور میں اس کاوش میں اگر اپنی زوجہ محترمہ کا ذکر نہ کروں تو نامناسب ہوگا۔ جس نے میری طویل علالت میں مجھے سہارا دیا اور میں دینی خدمت کے قابل ہوا۔اللہ تعالیٰ قبول فرمائے۔ ھدیہ تشکر کوئی بھی نیک عمل اسباب کے بغیر ممکن نہیں ہے ۔اور اللہ تعالی مسبب الاسباب ہے جس نے اسباب پیدا کیے جن کی وجہ سے میری دینی خدمات میں جاری ہیں۔ وہ اسباب مال ، وقت ، مہارتوں ، مشوروں کی شکل میں میرے احبا ب نے مہیا کیے ان تمام احباب کا شکر گزار ہوں اور علم فقہ الہلال کے موضوع پر میں یوکے و یورپ ہلال فورم کے تمام علماء کا شکر گزار ہوں جن کی مساعی جمیلہ سے یہ خیر کا کام جاری ہے۔ پہلے اسے پڑھیں بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيمِ أَمَّا بَعْدُ، حَمْدًا لِلّٰهِ تَعَالیٰ، وَالصَّلَاةُ وَالسَّلَامُ عَلَى رَسُولِ اللَّهِ - صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَعَلٰى آلِهِ وَسَلَّمَ۔ یہ مختصر کتاب رؤیتِ ہلال کے موضوع پر ایک جامع تحقیق پر مبنی ہے جس میں اس اہم مسئلے پر تفصیل سے روشنی ڈالی گئی ہے۔ یہ ایک ایسا معاملہ ہے جس نے گزشتہ ڈیڑھ صدی سے امت مسلمہ کو اختلافات میں مبتلا رکھا ہے، اور اب تک اس کا کوئی قابلِ عمل اور متفقہ حل پیش نہیں کیا جا سکا۔ اس کتاب میں دیانت داری کے ساتھ قرآنی آیات، احادیثِ نبویہ ﷺ، اور فقہاء کرام کے اقوال کی روشنی میں رویتِ ہلال کے مسئلے کو حقیقی حقائق کے ساتھ پیش کیا گیا ہے۔ اس کے علاوہ، خاص طور پر برطانیہ، یورپ، اور دیگر غیر اسلامی ممالک میں مقیم مسلمانوں کے لیے ایک عملی اور فقہی طور پر قابلِ قبول حل تجویز کرنے کی کوشش کی گئی ہے۔ یہ کتاب اپنے قارئین کو غیر جانبدارانہ غور و فکر کی دعوت دیتی ہے تاکہ وہ دلائل کی بنیاد پر خود تجزیہ کریں اور صحیح فیصلے تک پہنچ سکیں۔ امید ہے کہ یہ کوشش امت مسلمہ کے مابین یکجہتی اور اتحاد کو فروغ دینے میں معاون ثابت ہوگی۔ صدائے اول رسول اللہ ﷺ کی بعثت سے قبل انسانی معاشرہ ظلم، جہالت اور باہمی تفرقے میں مبتلا تھا۔ اس انتشار اور نفاق کی سب سے بڑی وجہ انسانوں کے درمیان نسلی، قبائلی اور طبقاتی تفریق تھی۔ جب نبی کریم ﷺ اس دنیا میں مبعوث ہوئے اور آپ ﷺ نے پیغامِ الٰہی لوگوں تک پہنچایا، تو سب سے اولین چیز جس پر آپ ﷺ نے توجہ مرکوز کی، وہ امن و سلامتی کا قیام تھا۔ اسی حقیقت کو حضرت ابراہیم علیہ السلام کی دعائے مکہ سے بھی سمجھا جا سکتا ہے، جہاں انہوں نے سب سے پہلے اللہ تعالیٰ سے دعا کی: رَبِّ اجْعَلْ هَذَا بَلَدًا آمِنًا۔[البقرۃ: 126] اے میرے رب! اس شہر (مکہ) کو پرامن بنا دے۔ یہ اس بات کی دلیل ہے کہ امن و امان کسی بھی قوم یا ملک کی ترقی کی بنیاد ہے، کیونکہ جب تک کسی خطے میں امن و استحکام نہیں ہوگا، وہاں خوشحالی ممکن نہیں۔اسی اصول کو نبی کریم ﷺ نے مدینہ منورہ میں عملی جامہ پہنایا۔ جب آپ ﷺ ہجرت کر کے مدینہ تشریف لائے تو وہاں کے مختلف طبقات، یعنی یہود، نصاریٰ اور مسلمانوں کو ایک منشورِ میثاق کے تحت یکجا کیا تاکہ سب کو یکساں حقوق اور تحفظ حاصل ہو۔ آپ ﷺ نے اعلان فرمایا: مدینہ کے تمام باشندے، چاہے وہ مسلمان ہوں، یہودی ہوں یا عیسائی، سب کے حقوق اور امن برابر ہوں گے۔ یہ معاہدہ اسلامی ریاست کی پہلی دستوری دستاویز تھا، جس نے مدینہ کو ایک پرامن، مستحکم اور ترقی یافتہ معاشرہ بنا دیا۔بعد ازاں، اسلام نے مسلمانوں کے درمیان اتحاد اور بھائی چارے کو فروغ دینے پر خصوصی توجہ دی۔ سب سے اہم اقدام دلوں سے نفرت کو مٹانا اور باہمی محبت و اخوت کا قیام تھا۔ جیسا کہ قرآنِ کریم میں اللہ تعالیٰ ارشاد فرماتے ہیں: إِذْ كُنتُمْ أَعْدَاءً فَأَلَّفَ بَيْنَ قُلُوبِكُمْ فَأَصْبَحْتُمْ بِنِعْمَتِهِ إِخْوَانًا۔[آل عمران: 103] وہ وقت یاد کرو جب تم ایک دوسرے کے دشمن تھے، پھر اللہ نے تمہارے دلوں کو جوڑ دیا، اور تم اس کی نعمت سے بھائی بھائی بن گئے۔ یہی وہ بنیادی اصول تھا جس کے ذریعے اسلام نے معاشرتی اصلاح کی بنیاد رکھی اور محبت و اتحاد کو فروغ دیا، تاکہ ایک مضبوط، مستحکم اور پرامن معاشرہ تشکیل پائے۔ تین بنیادی امور اور اتحاد امت: اسلام نے باہمی محبت اور اتحاد کو فروغ دینے کے لیے مستقل طور پر بنیادی عقائد کے بعد تین بنیادی چیزیں متعارف کروائیں کے جن میں سب سے پہلی چیز مساجد میں جماعت کی نماز کا قیام تھا۔ تمام مسلمانوں کو ایک امام کے پیچھے کھڑا کیا گیا، اور امام جماعت کی امامت کرتا۔ اس عمل کے ذریعے مسلمانوں کے دلوں میں محبت پیدا ہوئی، اتحاد مضبوط ہوا، اور ایک اجتماعی شان و شوکت کا اظہار ہوا۔ نمازِ باجماعت اور امام کی اتباع کی اہمیت کا اندازہ اس بات سے لگایا جا سکتا ہے کہ جب حضرت سیدنا عثمان غنی رضی اللہ عنہ مدینہ منورہ میں اپنے گھر میں محصور تھے اور خارجیوں نے مسجدِ نبوی کا منبر اور محراب سنبھال لیا تھا، تب بھی صحابہ کرام رضی اللہ عنہم ان کے پیچھے نماز پڑھتے رہے۔ ایک موقع پر کچھ صحابہ نے حضرت عثمان رضی اللہ عنہ سے عرض کی: حضرت! جب ہم مسجد میں نماز پڑھنے جاتے ہیں اور آپ محراب میں موجود نہیں ہوتے، تو ہمیں بہت تکلیف محسوس ہوتی ہے، اور نماز پڑھنے کو جی نہیں چاہتا۔ اس پر حضرت عثمان غنی رضی اللہ عنہ نے فرمایا: نماز ایک نیک عمل ہے، اگر وہ (خارجی) اسے اچھے طریقے سے ادا کر رہے ہیں، تو تم بھی ان کے ساتھ پڑھ لیا کرو۔ لیکن اگر وہ شرارت کریں تو شرارت میں ان کا ساتھ مت دینا۔ اسی طرح، میدانِ کربلا میں جب حضرت امام حسین رضی اللہ عنہ کی حرّ بن یزید ریاحی کے ساتھ ملاقات ہوئی اور نمازِ ظہر کا وقت آ گیا، تو امام حسین رضی اللہ عنہ نے پوچھا: آپ سب اپنی اپنی نماز ادا کریں گے یا ہمارے ساتھ جماعت میں پڑھیں گے؟ حرّ نے جواب دیا: جناب! ہم آپ کے ساتھ نماز پڑھیں گے۔ یہ ایک ایسا لمحہ تھا جب میدانِ کربلا میں دو مخالف گروہ ایک دوسرے کے آمنے سامنے تھے، لیکن سب نے ایک امام کے پیچھے نماز ادا کی۔ اس سے ظاہر ہوتا ہے کہ اسلام نے کس طرح نماز کو ذریعہ بنا کر مسلمانوں میں باہمی اتحاد اور محبت کو فروغ دیا۔اسی بنیاد پر امامِ اعظم ابو حنیفہ رحمۃ اللہ علیہ نے فاسق اور فاجر امام کے پیچھے بھی نماز پڑھنے کی اجازت دی، بشرطیکہ وہ ریاست یا انتظامیہ کی طرف سے مقرر کردہ امام ہو۔ ان کا موقف یہ تھا کہ اگر کوئی شخص ریاست کی طرف سے امام مقرر کیا گیا ہے، تو اس کے پیچھے نماز ادا کرنی چاہیے، تاکہ امت میں انتشار پیدا نہ ہو۔ یہی موقف جمہور ائمہ کرام کا بھی ہے۔ ہاں، اگر کوئی ایسا امام ہو جس کی بدعت حدِ کفر تک جا پہنچی ہو، یا جو کفر میں مبتلا ہو جائے، تو اس کے پیچھے نماز جائز نہیں۔یہ تعلیمات ہمیں یہ درس دیتی ہیں کہ اسلام نے ہمیشہ محبت، اتحاد اور یکجہتی کو فروغ دیا، اور جماعت کی نماز کو اس کا ایک اہم ذریعہ بنایا۔ مسلمانوں کو متحدکرنے والی دوسری چیز: اسلام میں مسلمانوں کو باہم جوڑے رکھنے والی دوسری اہم چیز نمازِ جنازہ تھی۔اسلام میں تفریق، اختلاف اور انتشار پیدا کرنے کا ایک ذریعہ یہ بھی ہو سکتا تھا کہ لوگوں کے جنازے الگ الگ کیے جاتے، لیکن اسلام نے جنازے کو اتحاد اور محبت کا ذریعہ بنایا۔سب سے پہلی مرتبہ حضرت سیدنا عثمان غنی رضی اللہ عنہ کے جنازے کے موقع پر خارجیوں نے یہ مذموم حرکت کی کہ انہوں نے آپ کے جنازے کو خراب کرنے اور اسے مسجدِ نبوی میں ادا ہونے سے روکنے کی کوشش کی۔ لیکن نمازِ جنازہ ایک ایسا عمل ہے جو دلوں میں نرمی پیدا کرتا ہے، برسوں کی دشمنی کو بھی ختم کر کے محبت میں بدل دیتا ہے، اور دلوں کو قریب لانے کا ذریعہ بنتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ اسلام نے جنازوں کو اکٹھا رکھنے کا حکم دیا۔ تاریخ میں کئی مثالیں موجود ہیں کہ صحابہ کرام اور تابعین، باوجود اختلافات کے، ایک دوسرے کے جنازے میں شریک ہوتے رہے۔ مثال کے طور پر، وہ صحابہ و تابعین جو حضرت مولا علی کرم اللہ وجہہ کے ساتھ تھے، جب ان کا وصال ہوتا تو حضرت امیر معاویہ رضی اللہ عنہ کے پیروکار ان کی نمازِ جنازہ ادا کرتے۔ اسی طرح، جب حضرت امیر معاویہ رضی اللہ عنہ کے حامی تابعین کا انتقال ہوتا، تو حضرت علی رضی اللہ عنہ کے چاہنے والے ان کی نمازِ جنازہ میں شریک ہوتے۔ اختلافات کے باوجود، سب نے ہمیشہ یہی کوشش کی کہ جنازے اکٹھے رہیں، تاکہ امت میں مزید انتشار نہ پھیلے۔ لیکن تاریخ میں پہلی بار جنازوں میں تفریق اور انہیں الگ الگ کرنے کا سلسلہ عباسی دور میں شروع ہوا۔ یہی وہ چیز تھی جس نے امت میں باہمی اختلاف اور دوریوں کو مزید بڑھایا۔ اسلام نے جنازے کو بھی اتحاد کا ذریعہ بنایا، کیونکہ ایک مسلمان کی موت کے بعد سب کو اس کے لیے مغفرت کی دعا کرنی چاہیے، نہ کہ اسے گروہی یا فرقہ وارانہ بنیادوں پر تقسیم کرنا۔ یہی وہ اسلامی روح تھی جس نے امت کو صدیوں تک جوڑے رکھا اور جس پر عمل کرنے کی آج بھی ضرورت ہے۔ ہجری کیلنڈر – امتِ مسلمہ کی وحدت کی علامت: تیسری چیز: ہجری کیلنڈر – امتِ مسلمہ کی وحدت کی علامت:تیسری چیز جس نے مسلمانوں میں اتفاق، اتحاد اور شان و شوکت کو برقرار رکھا، وہ ہجری کیلنڈر تھا۔ہجری کیلنڈر کے بارے میں امامِ اعظم ابو حنیفہ، امام مالک، امام شافعی اور امام احمد بن حنبل رحمہم اللہ کے بعد آنے والے جلیل القدر علماء کا یہی مؤقف تھا کہ اگر دنیا میں کسی بھی جگہ چاند کی رؤیت ثابت ہو جائے، تو وہ پوری امتِ مسلمہ کے لیے قابلِ قبول ہوگی۔ اس کی حکمت کیا تھی؟: اس کی بنیادی وجہ یہ تھی کہ کسی بھی قوم یا ریاست کا کیلنڈر لوکل نہیں ہوتا، بلکہ وہ پوری امت اور خلافت کے لیے مشترک ہوتا ہے۔ جب اسلام میں خلافت کا نظام قائم ہوا، تو ایک ہی ہجری کیلنڈر پوری امت میں رائج ہو گیا۔ یقیناً خلافتِ راشدہ کے دور میں تیز رفتار مواصلاتی ذرائع دستیاب نہیں تھے، جس کی وجہ سے فوری طور پر چاند کی خبر ہر جگہ نہیں پہنچ سکتی تھی۔ لیکن جیسے جیسے ذرائعِ ابلاغ اور اطلاعات کے وسائل ترقی کرتے گئے، ہجری کیلنڈر کا نظام مزید مستحکم ہوتا گیا۔ یہاں تک کہ عثمانی خلافت کے خاتمے (انیسویں صدی کے آخر تک) پوری سلطنتِ اسلامیہ میں ایک ہی کیلنڈر رائج تھا۔ جب بھی چاند کا اعلان کسی ایک جگہ ہوتا، تو پوری دنیا میں اسے شرعی اور انتظامی طور پر قبول کیا جاتا۔ مسلمانوں کی تقسیم اور ہجری کیلنڈر کی تباہی: جماعت کی نماز، جنازہ اور کیلنڈر— یہ تین چیزیں ایسی تھیں جنہوں نے صدیوں تک امتِ مسلمہ کو جوڑے رکھا۔ لیکن بدقسمتی سے، سب سے پہلے ہماری جماعتیں تقسیم ہوئیں، پھر جنازے تقسیم ہوئے، اور جب دشمنوں نے دیکھا کہ مسلمان مکمل طور پر تقسیم ہو چکے ہیں، تو جغرافیائی، سیاسی اور لسانی بنیادوں پر مسلم دنیا کو مزید ٹکڑوں میں بانٹ دیا گیا۔ جب مسلم دنیا سیاسی و جغرافیائی تقسیم کا شکار ہو گئی، تو اس کے ساتھ ہی ہجری کیلنڈر بھی تقسیم ہو گیا۔ اس وقت مسلمانوں کو ایک رکھنے کے بجائے، ہمارے علماء نے اسی تقسیم کو مضبوط کرنے کے لیے دلائل دینا شروع کر دیے۔ جس طرح پہلے کہا گیا کہ فلاں کے پیچھے نماز نہیں ہوتی، اس پر دلائل دیے جانے لگے۔پھر کہا گیا کہ فلاں کا جنازہ نہیں پڑھنا چاہیے، اس پر دلائل پیش کیے جانے لگے۔اسی طرح ہجری کیلنڈر کی تقسیم کو بھی دلیلوں سے جائز قرار دینے کی کوشش کی گئی۔نتیجہ یہ نکلا کہ ہجری کیلنڈر، جو پوری امت کو متحد رکھنے کا ایک ذریعہ تھا، خود اختلافات کی نذر ہو گیا۔ یہی وجہ ہے کہ آج امتِ مسلمہ ایک ہی چاند نظر آنے کے باوجود مختلف ایام میں عید مناتی ہے، مختلف ایام میں رمضان کا آغاز کرتی ہے، اور اپنے شرعی معاملات میں سیاسی سرحدوں اور قومی مفادات کو دینی اصولوں پر ترجیح دیتی ہے۔ حل کیا ہے؟: اگر امت کو دوبارہ متحد کرنا ہے، تو ہمیں انہی اصولوں کی طرف واپس آنا ہوگا جو صدیوں تک امت کے اتحاد کا سبب بنے:  تمام مسلمانوں کو ایک امام کے پیچھے نماز پڑھنی چاہیے، خواہ وہ کسی بھی فقہ سے تعلق رکھتے ہوں۔  ہر مسلمان کا جنازہ، چاہے کسی بھی فقہ یا گروہ سے ہو، پوری امت کو مل کر پڑھنا چاہیے۔  پوری دنیا میں چاند کی رؤیت کو ایک ہی معیار کے مطابق تسلیم کیا جائے، تاکہ امتِ مسلمہ ایک ہی دن عید اور دیگر اسلامی ایام مناسکے۔ یہی وہ اصول ہیں جن پر پہلے امتِ مسلمہ متحد تھی، اور اگر ہم دوبارہ ان پر عمل کریں، تو امت دوبارہ متحد ہو سکتی ہے۔بیسویں صدی میں، جب ممالک کی جغرافیائی تقسیم ہوئی، تو ہر ملک نے اپنا الگ قضا (عدالتی) نظام نافذ کر لیا۔ اس کے نتیجے میں، ایک ملک کا قاضی جب اعلان کرتا ہے کہ "ہمارے ملک میں چاند نظر آ گیا ہے"، تو اس علاقے کے لوگ روزہ بھی رکھتے ہیں اور عید کی نماز بھی پڑھتے ہیں، جبکہ دوسرے علاقوں کے لوگ ایسا نہیں کرتے۔ یہ تقسیم کا تصور اسلام میں بالکل موجود نہیں تھا، بلکہ یہ ایک ایسا نظریہ ہے جو بعد میں آنے والے علماء نے پیش کیا۔ اسلامی تعلیمات میں ایسی کوئی بنیاد نہیں ملتی کہ چاند کو سیاسی سرحدوں میں تقسیم کیا جائے۔ برطانیہ میں چاند کے مسئلے کی پیچیدگیاں: جب میں برطانیہ آیا، تو میں نے دیکھا کہ یہاں بھی چاند کے مسئلے پر ایک مصنوعی تقسیم پیدا کر دی گئی تھی۔ ہمارے بزرگ علماء جب عید یا رمضان کا اعلان کرتے، تو ہم نہ صرف ان کی پیروی کرتے، بلکہ ان کے دلائل کا تحفظ بھی کرتے۔ کیونکہ یہ بزرگ ہم سے پہلے آئے تھے، انہوں نے ہم سے زیادہ مشکلات اور تکالیف دیکھی تھیں، اور ان کا تجربہ ہم سے زیادہ تھا۔ لیکن 2015-2016ء میں کچھ فیصلوں پر اطمینان نہ ہوا۔ مثلاً، شرعی طور پر یہ بات طے شدہ ہے کہ اگر دنیا کے کسی کونے سے ہلال کی یقینی خبر مل جائے اور طلوعِ فجر سے پہلے ہو، تو روزہ فرض ہوتا ہے، خواہ مقامی علاقے میں چاند نظر آئے یا نہ آئے۔ لیکن برطانیہ میں علماء کا موقف تھا کہ برطانیہ، مراکش، یا ساؤتھ افریقہ میں چاند نظر آئے اور اعلان ہو تو قبول، ورنہ 30 دن پورے کیے جائیں گے۔ اور یوم شک کے حوالے سے فقہ کی بنیادی کتاب نور الایضاح میں یہ مسئلہ درج ہے کہ لیکن اگر یہی چاند برطانوی غروبِ آفتاب کے دو گھنٹے بعد کسی ملک میں واقعی نظر آ گیا اور وہاں لوگوں نے روزہ رکھ لیا، اور برطانیہ میں بھی اس کی اطلاع پہنچ گئی، تب بھی یہاں روزہ نہیں رکھا جاتا تھا۔ اسے ’’دائرۂ قضا‘‘کے نام پر مشہور کر دیا گیا کہ یہ ہمارے فارمولے کا حصہ نہیں، جو کہ قرآن کی صریحاً خلاف ورزی تھی۔پھر یہ بھی مسئلہ تھا کہ چاند کی خبر و شہادت صرف اپنے ہم مسلک سے لی جائے۔ الغرض، کئی پیچیدگیاں دیکھنے میں آئیں:  کچھ لوگ سعودی عرب کے اعلان پر ہجری ماہ کا آغاز کرتے، اور کچھ لوگ اپنی مساجد، تنظیمات، مختلف آستانوں یا ٹی وی چینلز سے جاری ہونے والے اعلان پر عمل کرتے۔  جو لوگ سعودی عرب کے ساتھ فیصلہ کرتے، انہیں ’’وہابی‘‘کہا جاتا۔  افریقہ، مشرقِ وسطیٰ اور دیگر ایشیائی ممالک کے وہ سنی صوفی مشرب کے مسلمان، جو ہمیشہ وحدت کے قائل تھے اور مسلکِ اہلِ سنت کے پاسبان تھے، انہیں بھی وہابی بنا دیا گیا۔  تعجب خیز بات یہ تھی کہ ترکی جیسے سنی، حنفی، صوفی ملک کو بھی چاند کی وجہ سے وہابی قرار دے دیا گیا، حالانکہ ترکی کا اپنا رؤیتِ ہلال کا نظام ہے۔ یہ جدید نوعیت کا ایک ایسا ’’علم العقائد‘‘ہے جو برطانیہ میں دستیاب ہے۔ چاند کا مسئلہ، جو درحقیقت امتِ مسلمہ کے اتحاد اور شان و شوکت کا ایک ذریعہ تھا، اسے اختلافات اور تفرقے کا سبب بنا دیا گیا۔ برطانیہ میں چاند کی موجودہ صورتحال: اس وقت برطانیہ میں جو صورتحال ہے، وہ کسی بھی باشعور مسلمان کے لیے انتہائی تکلیف دہ ہے:  ایک ہی گھر میں چار افراد میں سے دو روزہ رکھے ہوتے ہیں اور دو عید منا رہے ہوتے ہیں۔  کچھ لوگ ایک دن پہلے عید پڑھ رہے ہوتے ہیں، تو کچھ لوگ اگلے دن روزہ رکھ رہے ہوتے ہیں۔ قرآن و سنت اور جدید علمِ فلکیات کی روشنی میں حل کی کوشش: ان مسائل کے حل کے لیے قرآنی فکر آگے بڑھانے اور اتحاد و اتفاق کو عملی طور پر نافذ کرنے کے لیے ہم نے یہ فیصلہ کیا کہ قرآن و سنت کی نصوص اور جدید علمِ فلکیات کی بنیاد پر ایک ایسا پلیٹ فارم تشکیل دیا جائے، جو کم از کم کیلنڈر کی حد تک امت کو وحدت کی طرف واپس لا سکے۔ ’’یو کے اور یورپ ہلال فورم‘‘کا مشن: اسی مقصد کے تحت ’’یو کے اور یورپ ہلال فورم‘‘کا آغاز کیا گیا، تاکہ چاند کے مسئلے کو غیر ضروری اختلاف سے نکال کر ایک شرعی اور سائنسی بنیاد فراہم کی جا سکے۔اسی مقصد کے تحت ’’یو کے اور یورپ ہلال فورم‘‘نے یہ ذمہ داری قبول کی کہ قرآن و سنت کی روشنی میں امت کو ایک ہی چاند کے تحت اکٹھا کیا جائے۔ 1. قدیم فلکیاتی نظریات کی خامیوں سے اجتناب کیا جائے۔ 2. جدید علمِ فلکیات پر انحصار کیا جائے۔ 3. امت میں وحدت و یگانگت کو فروغ دیا جائے، تاکہ امتِ مسلمہ اختلافات سے نکل کر ایک مضبوط اور متحد قوت بن سکے۔ یہی وہ راستہ ہے جس پر چل کر ہم امت کے اتفاق، اتحاد اور عزت و وقار کو بحال کر سکتے ہیں۔ آج کی جدید دنیا اور موجودہ طرزِ زندگی میں ایک اہم ضرورت یہ ہے کہ ہم اپنی اسلامی تہواروں کا تعین پہلے سے کر لیں۔ لیکن افسوس کے ساتھ کہنا پڑتا ہے کہ ہم آج بھی رات 8 یا 9 بجے تک انتظار کرتے ہیں کہ اعلان ہو کہ عید کرنی ہے یا روزہ رکھنا ہے۔ ہم نے اپنی عبادات کو تو ایک دینی فریضہ سمجھ کر ان کے ایام کی رعایت کی، مگر اسلامی تہواروں کے معاشرتی پہلو کو بالکل نظر انداز کر دیا۔ حالانکہ اسلامی تہواروں کا مقصد صرف عبادت نہیں، بلکہ معاشرتی استحکام، خاندانی روابط اور باہمی تعلقات کو مضبوط کرنا بھی ہے۔ میں اسکاٹ لینڈ کی ایک میٹنگ میں شریک ہوا، جہاں میں نے ایک عالمِ دین کو یہ کہتے سنا کہ’’دو رکعت نماز پڑھنی ہے، اس کے بعد جا کر کام کرو‘‘۔یہ وہ خطرناک فلسفہ ہے جس نے مسلمانوں کے تہواروں کے اصل مقصد کو ختم کر کے رکھ دیا ہے۔ عید کا تعلق صرف دو رکعت نماز سے نہیں ہوتا، بلکہ یہ ایک سماجی و معاشرتی استحکام کا ذریعہ ہوتا ہے۔ اس دن خاندان آپس میں ملتے ہیں، دوست احباب اکٹھے ہوتے ہیں، ایک دوسرے سے محبت و اخوت کا اظہار کیا جاتا ہے۔لیکن ہم نے اپنے تہواروں کو بھی غیر یقینی اور غیر منظم بنا دیا، جس کا نتیجہ یہ نکلا کہ ہمارے بچے، چاہے وہ زبان سے کچھ نہ کہیں، لیکن نفسیاتی دباؤ کا شکار ہو جاتے ہیں۔ ایڈوانس اعلان نہ کرنے کے نقصانات: اگر ہم پہلے سے عید اور رمضان کے بارے میں حتمی اعلان نہیں کرتے، تو اس کے بہت بڑے نقصانات ہوتے ہیں۔ مثال کے طور پر، سال 2022ء میں یونیورسٹی آف برسٹل اور یونیورسٹی آف ویسٹ انگلینڈ میں 7000 طلبہ امتحان کی وجہ سے عید منانے سے محروم رہے۔ جب میں نے یونیورسٹی انتظامیہ سے رابطہ کیا کہ مسلمان طلبہ کے امتحانات عید کے دن نہ رکھے جائیں، تو ان کا جواب تھا: اگر آپ ہمیں دو سال پہلے عید کی حتمی تاریخ دے دیں، تو ہم اپنا شیڈول اس کے مطابق ترتیب دے سکتے ہیں۔ اگر ایک مسلمان کنسلٹنٹ سرجن کو عید کے دن چھٹی لینی ہو، تو اسے کم از کم چھ ہفتے پہلے اطلاع دینی ہوتی ہے تاکہ اس کے مریضوں کی اپوائنٹمنٹ بدلی جا سکے۔ اسی طرح، دیگر شعبہ جات میں کام کرنے والے افراد کو بھی پہلے سے چھٹی کے لیے درخواست دینی ہوتی ہے، مگر جب انہیں ہی عید کی تاریخ کا علم نہ ہو، تو وہ کیا کریں؟ عید کے لیے ہوٹل بُک کرنا، والدین سے ملنے کے لیے سفر کرنا، یا کسی دوسرے شہر یا ملک میں عید منانے کے لیے فلائٹس بُک کرنا—یہ سب کچھ ایڈوانس اعلان کے بغیر ممکن نہیں۔ لیکن جب تک چاند کا اعلان آخری وقت میں ہوتا رہے گا، مسلمان اپنی چھٹیوں اور سفر کے شیڈول نہیں بنا سکیں گے، جس سے معاشرتی، خاندانی اور دفتری نظام متاثر ہوتا ہے۔ان تمام مسائل کو دیکھتے ہوئے، یو کے اور یورپ ہلال فورم نے اس چیز کا اعادہ کیا کہ مسلمانوں کو وقت سے پہلے رمضان، عید اور دیگر تہواروں کی حتمی تاریخ دی جائے، تاکہ وہ: • اپنی چھٹیاں بُک کر سکیں • اپنے ہوٹل اور سفری شیڈول ترتیب دے سکیں • اگر وہ اپنے بچوں کے ساتھ ’’بیک ہوم‘‘ (آبائی ممالک) میں عید منانا چاہتے ہیں، تو اپنی فلائٹس کی بکنگ وقت پر کر سکیں اور یہ عمل قرآن و سنت کے خلاف بھی نہ جائے۔ یو کے اور یورپ ہلال فورم کا اقدام: الحمدللہ، یو کے اور یورپ ہلال فورم اب اس پوزیشن میں آ چکا ہے کہ آئندہ دس سال تک کا حتمی اور یقینی اسلامی کیلنڈر جاری کر سکے، جو کہ قرآن و سنت کی نصوص سے ماخوذ اصول، جدید علمِ فلکیات اور سائنسی بنیادوں پر مبنی ہوگا، تاکہ مسلمانوں کو وحدت اور استحکام نصیب ہو اور مسلم کمیونٹی کے معاشرتی، دینی اور نفسیاتی مسائل حل کیے جا سکیں۔ یہ چند صفحات، جو میں نے تحریر کیے ہیں، ان میں یہ تفصیل موجود ہے کہ ہم چاند کا اعلان کس اصول پر کرتے ہیں، اس کے شرعی دلائل کیا ہیں، اور کون سے اصول اس کے پیچھے کارفرما ہیں۔ یہ تمام باتیں سہل اور عام فہم انداز میں لکھی گئی ہیں تاکہ ہر مسلمان اس مسئلے کو سمجھ سکے۔ میں آپ سب سے گزارش کرتا ہوں کہ اس تحریر کو ضرور پڑھیں اور امت کے اتحاد کی طرف ایک قدم بڑھائیں۔ اور یہ بھی یاد رہے کہ اس تحریر کی ہر لائن کسی شرعی اصول پر مبنی ہے، اور اگر کسی کو سمجھنے میں مشکل ہو، تو ہم مدد کے لیے تیار ہیں۔ امتِ محمدیہ کا خیر خواہ: حافظ مفتی محمد فیض رسول نقش بندی [خادم، یو کے و یورپ ہلال فورم، برطانیہ] فصل اول: فقہُ الہلال کی اصطلاحات اور مطلع کے احکام محاق کی اصل اور اس کا چاند پر اطلاق: محاق (المِحَاق) عربی زبان کا لفظ ہے، جو چاند کی وہ حالت بیان کرنے کے لیے استعمال ہوتا ہے جب وہ بالکل نظر نہیں آتا۔ لفظ محاق کی لغوی اصل ’’م-ح-ق‘‘(مَحَقَ) ہے، جس کا بنیادی مطلب ہے کسی چیز کا مٹ جانا، زائل ہونا، ختم ہو جانا۔قرآن کریم میں بھی ’’مَحَقَ‘‘کا ذکر آیا ہے: يَمْحَقُ اللَّهُ الرِّبَا وَيُرْبِي الصَّدَقَاتِ۔[البقرہ: 276] اللہ تعالیٰ سود کو مٹا دیتا ہے اور صدقات کو بڑھاتا ہے۔ محاق کا چاند پر اطلاق کیوں ہوتا ہے؟: چاند کی وہ حالت جب وہ بالکل نظر نہیں آتا، اسے’’محاق‘‘کہا جاتا ہے، کیونکہ اس وقت چاند کی روشنی مٹ جاتی ہے، یعنی وہ بالکل تاریک ہو جاتا ہے اور ہمیں دکھائی نہیں دیتا۔ یہ قمری مہینے کی آخری تاریخوں میں ہوتا ہے، جب چاند نئے چاند میں تبدیل ہونے کے مرحلے میں داخل ہوتا ہے۔ فلکیاتی لحاظ سے، محاق وہ دورانیہ ہے جب چاند سورج اور زمین کے درمیان آ جاتا ہے، اور سورج کی روشنی اس کے زمین کی طرف والے حصے پر نہیں پڑتی، جس کی وجہ سے وہ نظر نہیں آتا۔ محاق عام طور پر 1.5 سے 3 دن تک رہتا ہے، یعنی قمری مہینے کے 28ویں، 29ویں اور 30ویں دن چاند بالکل غائب ہو سکتا ہے۔ اور نیا چاند پیدا ہونے کے بعد جب تک سورج کی روشنی میں نہیں آتا، اس وقت تک محاق ہی رہتا ہے۔ قمری مہینے کے بعد نیا چاند (ہلال) محاق کے بعد ظاہر ہوتا ہے، اور اسی کے ذریعے اسلامی مہینے کا آغاز ہوتا ہے، جیسے رمضان، شوال وغیرہ۔ ’’ہلال‘‘ کی اصل، تعریف اور فلکیاتی وضاحت: ہلال (الهِلال) عربی زبان کا لفظ ہے، جو نئے چاند کے ظہور پر بولا جاتا ہے۔لفظ ہلال کی اصل ’’ہ-ل-ل‘‘ (هَلَلَ) ہے، جس کا مطلب ہے: چمکنا، ظاہر ہونا، اعلان کرنا، آواز بلند کرنا۔ عربی میں ’’ہلال‘‘ کا مطلب ’’اعلان‘‘بھی ہوتا ہے، اور قدیم عرب میں جب چاند پہلی بار نظر آتا تھا، تو لوگ خوشی سے نعرے لگاتے، چاند دیکھنے کا اعلان کرتے اور نئے مہینے کے آغاز کی خبر دیتے۔ اسی وجہ سے پہلی بار نظر آنے والے چاند کو ’’ہلال‘‘کہا جانے لگا۔ علمِ فلکیات کے مطابق ہلال کی تعریف: علمِ فلکیات کے مطابق ہلال اس چاند کو کہتے ہیں جو محاق (نیو مون) کے بعد پہلی بار نظر آنے کے قابل ہو۔محاق کے دوران چاند سورج اور زمین کے درمیان ہوتا ہے، اس کا زمین کی طرف والا حصہ تاریک رہتا ہے، اس لیے وہ نظر نہیں آتا۔ محاق کے بعد جب چاند زمین کے گرد اپنی حرکت جاری رکھتا ہے اور سورج کی روشنی اس کے ایک کنارے پر پڑنے لگتی ہے، تو ہمیں چاند باریک کمان کی شکل میں دکھائی دیتا ہے، یہی ’’ہلال‘‘کہلاتا ہے۔فلکیاتی اعتبار سے ہلال 29 یا 30 قمری تاریخ کی شام کو نمودار ہوتا ہے۔ جدید علم الفلکیات کے اعتبار اگر چاند اتفاع(Altitude ) 5ڈگری ہو، اور بعد شمس (Elongation) 8 ہو تو ہ ہلال ہوتا ہے۔ اگر چاند اس سے کم درجہ میں ہو اور کسی نے کہا کہ اس نے ہلال دیکھا ہے وہ گواہی مردود ہوگی ۔ مطلع:مطلع کا معنی ہے طلوع ہونے کا مقام، اس کی جمع ’’مطالع‘‘ہے۔جس مقام پر چاند طلوع ہوتا ہے، اسے ’’مطلعِ ہلال‘‘ کہتے ہیں۔ فصل دوم: احکامِ مطلع اتحاد المطالع: آج کل ’’لوکل مون سائٹنگ‘‘اور ’’گلوبل مون سائٹنگ‘‘کی اصطلاحات بہت عام ہیں۔ بہت سے احباب ’’لوکل مون سائٹنگ‘‘پر بہت زور دیتے ہیں کہ اگر آپ کے ملک میں چاند نظر آ گیا تو درست ہے، ورنہ دوسرے ملک کے اعلان پر نہ روزہ رکھیں گے اور نہ ہی عید منائیں گے۔ جبکہ مسلمانوں کا ایک بڑا گروہ ’’گلوبل مون سائٹنگ‘‘پر عمل پیرا ہے۔ ان کے نظریے کے مطابق دنیا کے کسی بھی علاقے میں ہلال کا ثبوت ہو جائے، تو وہ اس کا اعلان کرتے ہیں۔ ’’گلوبل مون سائٹنگ‘‘کو ’’اتحاد المطالع‘‘کہتے ہیں۔ اسلام صرف عبادات یا رسومات کا مذہب نہیں، بلکہ خلافت و ریاست کے نظام کا دین ہے۔ حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ کے دورِ خلافت میں جب ہجری کیلنڈر کا تعین ہوا، تو مختلف علاقے اور ریاستیں اسلامی خلافت کا حصہ بن گئیں۔ مثلاً حجاز مقدس (موجودہ سعودی عرب) اور ایران میں ایک ہی تاریخ یا کیلنڈر تھا، اگرچہ ان کے درمیان ہزاروں میل کا فاصلہ تھا۔ یہی نظام عثمانی خلافت کے خاتمے تک قائم رہا۔اسی طرح متحدہ ہندوستان میں بھی عثمانی خلافت کے تحت ہلال کا اعلان ہوتا تھا، اور پورے خطے میں رمضان اور عیدین ایک ہی دن منائے جاتے تھے۔ اختلاف المطالع: مگر بیسویں صدی میں جب مسلمانوں کی وحدت تقسیم ہوئی، عثمانی خلافت کا خاتمہ ہوا اور متحدہ ہندوستان بھی تقسیم ہو گیا، تو اس کے ساتھ ہی سیاسی تقسیم کے نتیجے میں نئے ممالک وجود میں آئے، اور ہر ملک نے اپنے طور پر ہلال کا اعلان شروع کر دیا۔مثلاً: • ترکی نے اپنا مستقل ہلال کا نظام بنا لیا۔ • عرب ممالک نے اپنا الگ نظام اپنایا۔ • متحدہ ہندوستان میں پہلے ہلال کا اعلان ایک ہی ہوتا تھا، مگر تقسیمِ ہند کے بعد انڈیا اور پاکستان کے اعلانات الگ ہو گئے۔ • اگر مشرقی پاکستان (موجودہ بنگلہ دیش) کے شہر ڈھاکہ میں ہلال نظر آتا، تو لاہور میں اعلان ہو جاتا تھا۔ • مگر 1971ء میں جب بنگلہ دیش ایک علیحدہ ملک بن گیا، تو مطلعِ ہلال بھی تقسیم ہو گیا۔ اب پاکستان کا اپنا اعلان ہوتا ہے اور بنگلہ دیش کا اپنا۔ • جامعۃ الرشید پاکستان کے شعبہ فلکیات نے اپنے ایک سوشل میڈیا پیج پر ایک پوسٹ لکھی جو قابل غور ہے۔ کیا پوری دنیا میں رمضان کی ابتدا اور عید ایک ہی دن ہو سکتی ہے ؟ • ‎اس مسئلے کا تعلق اس بات سے ہے کہ کیا اختلاف مطالع شرعاً معتبر ہے یا نہیں ؟ • ‎(مطلع کا معنیٰ ہے ’’چاند کے طلوع ہونے کی جگہ‘‘ اس طرح اختلاف مطالع کا مطلب یہ ہوا کہ دنیا کے مختلف خطوں میں چاند کے طلوع ہونے اور نظر آنے کی جگہ الگ الگ ہوا کرتی ہے، لہذا عین ممکن ہے کہ ایک جگہ چاند نمودار ہو اور دوسری جگہ نہ ہو ۔ ایک جگہ پہلے دن نظر آئے اور دوسری جگہ دوسرے دن ۔) • ‎جو علاقے جتنے زیادہ مغرب کی طرف ہوتے ہیں وہاں اتنی جلدی چاند نظر آنے کا امکان ہے ، اب سوال یہ ہے کہ اگر کسی مغربی افق پر چاند نظر آگیا تو ظاہر ہے کہ وہاں کے مسلمان اس کے مطابق عمل کریں گے، لیکن اگر کسی دوسرے ملک میں چاند نظر نہ آیا تو کیا اس دوسرے ملک والوں کے لئے ضروری ہے کہ پہلے مقام پر نظر آنے والے چاند کی بنیاد پر روزہ رکھنا شروع کریں یا عید منالیں ؟ • ‎اس سلسے میں فقہا کرام کے 3 اقوال ہیں : • ‎1 ۔ اختلاف مطالع کا ہر جگہ ہر حال میں اعتبار کیا جائے۔ • ‎2 ۔ اختلاف مطالع کا کسی جگہ کسی حال میں بھی اعتبار نہ کیا جائے اور ایک جگہ چاند نظر آنے پر پوری دنیا کے مسلمان اسی پر عمل کریں۔ • ‎3 ۔ بلاد بعیدہ (دور دراز علاقوں) میں اس کا اعتبار کیا جائے کہ وہ اپنے اپنے علاقوں میں چاند کے نظر آنے پر اس کے مطابق عمل کریں جبکہ (قریبی علاقوں ) میں اس کا اعتبار نہ کیا جائے بلکہ ایک جگہ چاند نظر آنے پر دوسری جگہ اس کے مطابق عمل کرلیا جائے ۔ • ‎متاخرین حنفیہ میں سے بہت سے فقہا نے تیسرے قول کو ترجیح دی ہے ۔ • ‎البتہ سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ کونسے علاقے بلاد قریبہ شمار ہوں گے اور کون سے بلاد بعیدہ، اس بارے میں بعض فقہانے یہ ضابطہ بیان فرمایا ہے کہ ایک علاقے کی رویت کا اعتبار کرنے میں دوسرے علاقے کا مہینہ اٹھائیس یا اکتیس دن کا ہورہا ہو تو بلاد بعیدہ شمار ہوں گے اور اگر یہ فرق نہ پڑتا ہوتو وہ بلاد قریبہ شمار ہوں گے۔ • ‎البتہ ماہرین فن کا کہنا ہے کہ مذکورہ بالا بنیاد پر بلاد قریبہ اور بلاد بعیدہ کا فیصلہ کرنا فنی اعتبار سے زیادہ درست نہیں کیوںکہ چاند بعض مرتبہ نظر آنے کے قریب ہوتا ہے لیکن وقت کی تھوری سی کمی اسے غائب کردیتی ہے جبکہ نظرآنے کے بعد وہ بہت دور تک کے علاقوں میں نظر آتا رہتا ہے اس لئے بعض دفعہ تھوڑے سے فاصلے سے مطلع بدل جاتا ہے اور پھر بہت زیادہ فاصلے تک مطلع نہیں بدلتا ، مثلاً ولادت قمر کے سولہ گھنٹے بعد چاند نظر آنے کا امکان ہے تو جب اس کی عمر پونے سولہ گھنٹے ہوگی تو وہ نظر نہیں آئے گا، پندرہ منٹ کے فاصلے پر (یعنی تقریبا ڈھائی سو میل مغرب کی طرف) سولہ گھنٹے کا ہوجائے گا اور وہاں ںظر آجائے گا اور اس کے بعد آنے والے مغربی علاقوں میں نظر آتا رہے گا اس لئے بہتر یہ ہے کہ جس علاقے میں نظر آئے وہی علاقے والے اس پر عمل کریں ۔ • ‎دونوں آرا کو سامنے رکھ کر نیر موجودہ حالت کی روشنی میں زیادہ قابل عمل صورت یہ نظر آتی ہے کہ ایک ملک کے تمام علاقوں کو ایک ہی طرح کے قوانین اور اصول و ضوابط کا پابند ہونے کی وجہ سے بلاد قریبہ قرار دیا جائے اور ملک کے کسی بھی حصے میں چاند نظر آنے پر پورے ملک میں اس کے مطابق فیصلہ کیا جائے جبکہ دیگر ممالک کے حکم کا مدار وہاں کی رؤیت پر رکھا جائے۔ • • ‎آسان فلکیات ، مولانا اعجاز احمد صمدانی (صفحہ :79) • ‎و فتح الملہم، کتاب الصوم ، باب بیان ان لکل بلد رؤیتھم • • ‎"جیسا کہ یہ بتایا جاچکا ہے کہ اس میں علما کی آراء مختلف ہیں لہذا مفتی رشید احمد لدھیانوی رحمہ اللہ اور دیگر جید سمیت علما کی یہ رائے ہے کہ حنفیہ کے اقوال کے مطابق راجع قول یہی ہے کہ اختلاف مطالع معتبر نہیں لہذا مغرب میں چاند نظر آجائے تو مشرق والوں پر عید اور رمضان کرنا ضروری ہے. • ‎البتہ پاکستان میں رویت ہلال کمیٹی کے تحت علما کا یہ فیصلہ ہوا تھا جس کے مطابق ایک ملک کے اندر چاہے وہ ملک کتنا بڑا ہو اختلاف مطالع کا اعتبار نہیں کیا جائے گا اور حکومت جب الگ ہوگی یا الگ ملک میں اختلاف مطالع کا اعتبار کیاجائے گا اس کی وجہ یہ نہیں اختلاف مطالع معتبر ہے بلکہ یہ وجہ ہے کہ قاضی کا فیصلہ اسی کی حدود میں نافذ ہوتا ہے دوسرے کے حدود میں نافذ نہیں ہوتا لہذا پاکستان کا فیصلہ بھارت پر یا افغانستان پر نافذ نہیں ہوسکتا اس وجہ سے ان کا مطلع الگ اور ہمارا الگ سمجھا جائے .. • ‎دونوں آراء کا نتیجہ یہی ہے کہ ملک کے کسی بھی حصے میں چاند نظر آنے پر پورے ملک میں اس کے مطابق فیصلہ کیا جائے جبکہ دیگر ممالک کے حکم کا مدار وہاں کی رؤیت پر رکھا جائے۔ • ‎(ایڈمن: جامعة الرشيد) • : اس طرح امت سیاسی ، قبائلی ، لسانی بنیادوں پر طور پر تقسیم ہوئی، اسی طرح ہلال کے مسئلے پر بھی تقسیم ہو گئی، بلکہ اس تقسیم کو ایک مستحسن (اچھا) عمل قرار دے دیا گیا، حالانکہ یہ کوئی مثبت عمل نہیں تھا۔ ہر علاقے اور ملک کے مسلمانوں کو چاند دیکھنا چاہیے، مگر ماہِ شعبان، رمضان، شوال اور ذوالحجہ کے ہلال کا دیکھنا لازمی ہے۔ اگر کسی ایک علاقے میں چاند نظر آ جائے، تو اعلان ہونا چاہیے، اور اگر ایک علاقے میں نظر نہ آئے، مگر کسی دوسرے علاقے میں نظر آ جائے، تو اس پر عمل کرنا لازمی ہے۔ اختلاف مطلع پر فقہائے کرام کے دو گروہ: اختلافِ مطلع کے مسئلے پر فقہائے کرام کے دو گروہ ہیں۔ ایک گروہ، جس میں حنفی، مالکی اور حنبلی مذاہبِ فقہ شامل ہیں، ان کا موقف یہ ہے کہ اگر ایک جگہ ہلال نظر آ جائے تو وہ تمام دنیا کے لیے معتبر ہوگا۔ اس موقف کے فقہاء کہتے ہیں کہ اگر دن اور رات کے فرق کا مسئلہ نہ ہو، تو جہاں بھی ہلال کی درست خبر ملے، اس پر عمل کرنا لازم ہے۔ دوسرا موقف امام شافعی رحمۃ اللہ علیہ کا ہے کہ ہر شہر کا اپنا مطلع ہوتا ہے۔علامہ عبد الرحمن الجزیری اپنی مشہور کتاب ’’الفقہ فی المذاہب الأربعۃ‘‘میں لکھتے ہیں: إذا ثبت رؤية الهلال بقطر من الأقطار وجب الصوم على سائر الأقطار، لا فرق بين القريب من جهة الثبوت والبعيد إذا بلغهم من طريق موجب للصوم. ولا عبرة باختلاف مطلع الهلال مطلقاً، عند ثلاثة من الأئمة؛ وخالف الشافعية۔[الفقہ فی المذاہب الأربعۃ] اگر زمین کے کسی ایک علاقے میں ہلال نظر آ جائے تو تمام علاقوں میں روزہ فرض ہو جاتا ہے۔ اس میں دور اور نزدیک کا کوئی اعتبار نہیں، بشرطیکہ یہ خبر ایسے طریقے سے پہنچے جس سے روزہ واجب ہو جائے۔ اور تین آئمہ (امام ابو حنیفہ، امام مالک، امام احمد بن حنبل رحمہم اللہ) کے نزدیک اختلافِ مطلع کا بالکل اعتبار نہیں ہے، البتہ امام شافعی کا فتویٰ مختلف ہے۔ یاد رہے کہ امام شافعی رحمۃ اللہ علیہ کے نزدیک تقریباً 124 کلومیٹر کے بعد مطلع مختلف ہو جاتا ہے۔ بعد میں آنے والے شوافع نے بھی آئمہ ثلاثہ کے مذہب کو اپنا لیا۔جب امامِ اہلِ سنت، امام احمد رضا خان رحمۃ اللہ علیہ کے پاس مولانا ریاست علی خان رحمۃ اللہ علیہ کا سوال آیا: کیا فرماتے ہیں علمائے دین اس مسئلے میں کہ دو شخص کسی دوسرے شہر سے 29 تاریخ کا چاند دیکھ کر آئیں، گو مسافت اُس شہر کی ایک ماہ سے زائد ہو، تو گواہی اُن کی درباب رؤیتِ ہلالِ عیدالاضحی معتبر ہوگی یا نہیں؟ تو اس کا جواب یوں دیا: جب وہ شہادت شرعیہ عادلہ ہو تو ضرور معتبر ہوگی، اگرچہ ہلالِ عید الاضحی ہو، اور اگرچہ اُن کے درمیان مسافت ایک ماہ سے زیادہ ہو، یہی ہمارے ائمہ کا مذہب ہے، اور اسی پر فتویٰ ہے، اور اس سے عدول باطل و ناروا ہے۔[فتاویٰ رضویہ، جلد 10، صفحہ 403] میں اس بحث کے آخر میں مطلع ہلال کی وحدت پر الشيخ عدنان بن محمد العرعور حنبلی کے رسالہ’’ أحكام رؤية الهلال‘‘ سے اقتباس پیش کرتا ہوں، شیخ فرماتے ہیں : وجوب توحيد الصيام والإفطار للأمة كلها في جميع أقطارها .. وذلك؛ لأن الهلال واحد، والأرض واحدة، والمسلمون كلهم أمة واحدة.وأمرُ رسول صلى الله عليه وسلم: ((صوموا لرؤيته، وأفطروا لرؤيته)) هو خطاب للمسلمين جميعاً، دون تفريق بينهم بحدود مصطنعة، أو تقسيمات مخترعة ‌‌الثالثة: إذا ثبتت رؤية الهلال في بلد ما شرعاً؛ وجب على المسلمين كافة الأخذ بذلك، دون النظر إلى حساب أو تشكيك، فإن هذا من التنطع، والتفريق للأمة المنهي عنه. ‌‌الرابعة: إنّ دعوى ((اختلاف المطالع)) بمعنى أنه يطلع على بلد دون بلد، وهم على خط طول واحد .. ، أو أنه يطلع على بلد غربي، ثم بلد شرقي، ثم بلد شمالي؛ هي دعوى غير صحيحة؛ من حيث الشرع، ومن حيث الواقع الفلكي، فإن للقمر إهلالة واحدة على الأرض، ثم تتابع هذه الإهلالة على الأرض وتكبر حسب خطوط الطول خطاً خطاً .. أي كلما اتجهنا نحو الغرب، حتى يهل على العالم كله في ليلة واحدة.ولا يقال يتتابع إهلاله على الأرض دولة دولة، لأن الدول تتداخل مع خطوط الطول، ولا تنضبط لتفاوت مساحاتها، وتعرج حدودها. فأما إذا كان المقصود بـ (اختلاف المطالع): أن القمر يهل على خطِّ طولٍ معين، ثم يتتابع ظهوره على خطوط الطول خطا خطاً، أو بلداً بلداً .. من الشرق إلى الغرب؛ فصحيح، ولكن دون نظر إلى الحدود السياسية. وأما إن كان المقصود بـ ((اختلاف المطالع)): أن لكل دولة مطلعها، وأن الهلال يطلع على الشام ولا يطلع على العراق، ويطلع على السعودية ولا يطلع على البحرين، ويطلع على مصر ولا يطلع على السودان، فهذا من أبطل الباطل، وهي مقولة تخالف الشرع ولا تتفق مع واقع حقيقة الفلك. وإذا سلّمنا جدلاً؛ أنّ لكل بلد مطلعه فيقال: ما معنى البلد؟ وما تعريفه؟ هل هو حسب الحدود السياسية التي رُسمت للأمة وفرقتها؟ ! أم حسب الاصطلاح الجغرافي؟ وهل القمر يعترف بهذا؟ ! أو حتى يعرف هذا؟ ! ثم ما هي مساحة البلد المقصود بقولهم: (لكل بلد مطلع)؟ فهناك بلد مساحته ملايين الأميال المربعة، وهناك بلد لا يتجاوز مساحته العشرات. ثم إن البلد الكبير (الدولة) فيه بُلدان (مدن) صغيرة كثيرة، فهل تكون الرؤية للبلد الكبير كله؟ ؟ أم لكل بلد صغير رؤيته؟ ؟ كل هذا يشير إلى تناقض أصحاب ((اختلاف المطالع))، ويدل على بطلانه، بل على عدم وجوده أصلاً .. إلاّ في أذهان قائليه. وأما حديث كريب الذي يحتجون به، فخلاصته: وهو أن كريباً طلب من ابن عباس وهو في المدينة، أن يفطروا على رؤية أهل الشام، فأبى ابن عباس ذلك؛ فليس فيه أن لكل بلد مطلعه وإنما فيه طلب أن يصوم أهل المدينة على رؤية أهل الشام .. وهذا هو الأصل فأبى ابن عباس ذلك .. وهذا هو الصواب وقتئذ، فإذا صاموا على رؤية أهل الشام فلا يمكنهم معرفة رؤية أهل الشام لهلال شوال؛ لانعدام الاتصالات المباشرة، لذلك كان لزاماً أن يصوم أهل كل بلد يومئذ حسب رؤيتهم، وهذا ما يفيده رأي ابن عباس، وذلك لتعذر بلاغ الرؤية للجميع - يومئذ - وليس في حديث كريب أن لكل بلد سياسي مطلعه، ولكل قطر جغرافي هلاله. ثم لو كان الأمر أن لكل بلد مطلعهم، لقيل: ما هي حدود هذا البلد في عهد الصحابة حتى يصوم أهله .. ؟ ما هي المساحة التي يصوم فيها المسلمون ولا يصومون بعدها .. ؟ ولو أمعن الناس النظر في هذه المسألة، لأدركوا خطأ بل فساد القول بأنَّ ((لكل بلد مطلعه)). وأما الجواب الصحيح عن حدود البلد التي يصوم المسلمون فيها، فهو حدود علمهم أن الهلال قد هلّ … فمن بلغه الخبر صام، أو أفطر، ومن لم يبلغه لم يصم، ولم يفطر، وذلك لأن الشرع أناط الأحكام بعلم الإنسان بها، ولم ينطها ببلد، أو حدود، أو ما شابه ذلك. فإن قال قائل: "لكل بلد مطلعه"، حسب إمام البلد حتى لا يتفرق المسلمون فيه. قلت: لا شك بوجوب صوم البلد السياسي جميعاً وطاعة الإمام في ذلك .. وذلك حتى لا يتفرقوا .. لكن لا يُقال "لكل بلد مطلع"، وإنما يُقال: على أهل البلد اتباع أمامهم في الصوم خشية التفرق، فهذا حكم .. والقول بأن: "لكل بلد مطلع قمري" خاص به حكم آخر، فإن الأول صحيح والآخر باطل۔ ‌‌الخامسة: بناء على ما سبق فيجب على المسلمين أن يصوموا عند علمهم بالرؤية الشرعية، دون النظر إلى حدود، ولا بلدان، ولا جوازات سفر۔ ایک ہی دن روزہ رکھنے اور افطار کرنے کا ہےتمام علاقوں میں پوری امت کے لیے وجوب:یہ ضروری ہے کہ پوری امت ایک ساتھ روزہ رکھے اور ایک ہی دن افطار کرے، کیونکہ چاند ایک ہی ہے، زمین بھی ایک ہی ہے، اور تمام مسلمان ایک ہی امت ہیں۔ رسول اللہ ﷺ کا فرمان:’’چاند دیکھ کر روزہ رکھو اور چاند دیکھ کر افطار کرو‘‘یہ تمام مسلمانوں کے لیے عام حکم ہے، جس میں مصنوعی سرحدوں یا خود ساختہ تقسیمات کی کوئی گنجائش نہیں۔ تیسرا نکتہ:اگر کسی بھی ملک میں شرعی طریقے سے چاند کی رویت ثابت ہوجائے تو تمام مسلمانوں کے لیے اس کو قبول کرنا واجب ہے، بغیر کسی حساب و کتاب یا شک و شبہے میں پڑے۔ ایسا کرنا غیر ضروری سختی (تنطع) اور امت میں تفرقہ پیدا کرنے کے مترادف ہے، جو کہ ممنوع ہے۔ چوتھا نکتہ:’’اختلافِ مطالع‘‘(یعنی چاند کا مختلف مقامات پر مختلف اوقات میں طلوع ہونا) کا یہ دعویٰ کہ چاند کسی ایک ملک میں نظر آئے گا مگر اسی طول البلد (Longitude) پر موجود دوسرے ملک میں نہیں، یا کہ چاند پہلے مغربی ملک میں نظر آئے گا اور پھر مشرقی میں، یا کسی شمالی علاقے میں پہلے اور جنوبی میں بعد میں، یہ سب غیر درست باتیں ہیں— نہ تو یہ شرعی طور پر ثابت ہیں، نہ ہی فلکیاتی حقیقتوں سے مطابقت رکھتی ہیں۔ کیونکہ چاند کی ایک ہی رویت (إهلال) ہوتی ہے، جو زمین پر نظر آتی ہے، اور پھر یہ نظر آنے کا سلسلہ طول البلد کی لائنوں کے حساب سے آگے بڑھتا جاتا ہے، یعنی جوں جوں مغرب کی طرف بڑھتے ہیں، چاند کی رویت ظاہر ہوتی جاتی ہے، یہاں تک کہ پوری دنیا میں ایک ہی رات میں چاند نظر آجاتا ہے۔ یہ کہنا کہ چاند ’’ملک بہ ملک‘‘طلوع ہوتا ہے، غلط ہے، کیونکہ ممالک کی سرحدیں جغرافیائی طول البلد کے ساتھ مطابقت نہیں رکھتیں، اور مختلف ممالک کی حدود ایک دوسرے میں گڈمڈ ہوتی ہیں، جو کہ اس نظریے کے غلط ہونے کی دلیل ہے۔ اگر’’اختلافِ مطالع‘‘سے مراد یہ لیا جائے کہ چاند ایک خاص طول البلد پر پہلے ظاہر ہوتا ہے، اور پھر مغرب کی طرف آگے بڑھتا ہے، تو یہ درست بات ہے، لیکن اسے سیاسی سرحدوں سے جوڑنا غلط ہوگا۔ لیکن اگر اس سے مراد یہ لی جائے کہ ہر ملک کا چاند الگ ہے، اور چاند شام میں تو نظر آئے گا مگر عراق میں نہیں، سعودی عرب میں تو ہوگا مگر بحرین میں نہیں، مصر میں تو دکھے گا مگر سوڈان میں نہیں، تو یہ بالکل غلط اور بے بنیاد دعویٰ ہے، جو نہ تو شریعت کے مطابق ہے اور نہ ہی فلکیاتی حقیقتوں سے میل کھاتا ہے۔ اگر ہم یہ مان بھی لیں کہ ہر ملک کا اپنا مطلع ہے، تو پھر سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ ’’ملک‘‘کی تعریف کیا ہوگی؟کیا ملک کی تعریف وہ سیاسی حدود ہیں جو مسلمانوں کو تقسیم کرنے کے لیے بنائی گئی ہیں؟ یا پھر جغرافیائی اصطلاحات پر مبنی کوئی حد بندی ہے؟ کیا چاند بھی ان سرحدوں کو جانتا ہے یا مانتا ہے؟پھر، ملک کی وسعت کیا ہوگی؟ کیا ایک ایسا ملک جس کا رقبہ لاکھوں مربع میل پر پھیلا ہوا ہو، وہ پورا ملک ایک ساتھ چاند دیکھے گا؟اور ایک ایسا ملک جو صرف چند میل کے رقبے پر مشتمل ہو، وہ الگ چلے گا؟پھر، ایک بڑے ملک کے اندر موجود چھوٹے چھوٹے شہر کیا کریں گے؟کیا پورے بڑے ملک کی رویت ایک ہوگی یا ہر چھوٹے شہر کی الگ؟یہ تمام سوالات اس بات کی طرف اشارہ کرتے ہیں کہ ’’اختلافِ مطالع‘‘کے قائلین کا نظریہ تضادات سے بھرا ہوا ہے اور حقیقت میں اس کا کوئی وجود نہیں، بلکہ یہ صرف ذہنی اختراع ہے۔ کریب کی حدیث اور اس کی حقیقت:جو لوگ ’’اختلافِ مطالع‘‘کے قائل ہیں، وہ حضرت کریبؓ کی حدیث سے استدلال کرتے ہیں۔ اس حدیث کا خلاصہ یہ ہے کہ کریبؓ نے مدینہ میں حضرت ابن عباسؓ سے مطالبہ کیا کہ وہ شام کی رویت کے مطابق روزہ اور عید کریں، لیکن ابن عباسؓ نے ایسا کرنے سے انکار کر دیا۔ لیکن اس حدیث میں یہ بات کہیں نہیں کہ ہر ملک کی الگ الگ رویت ہوگی، بلکہ اس میں صرف یہ ہے کہ کریبؓ نے اہلِ مدینہ سے مطالبہ کیا تھا کہ وہ اہلِ شام کی رویت پر عمل کریں، اور حضرت ابن عباسؓ نے اس وقت اس سے اختلاف کیا تھا۔ حضرت ابن عباسؓ کا یہ موقف اس وقت کے حالات کے مطابق بالکل درست تھا، کیونکہ اس دور میں فوری اطلاعات کی ترسیل ممکن نہیں تھی۔ اس لیے یہ ضروری تھا کہ ہر شہر کے لوگ اپنی مقامی رویت پر عمل کریں۔ اس سے یہ ثابت نہیں ہوتا کہ ہر جغرافیائی ملک کا چاند الگ ہوگا، بلکہ صرف یہ ثابت ہوتا ہے کہ اس وقت رویت کی اطلاع کا نظام محدود تھا۔ اگر ’’ہر ملک کے لیے الگ چاند‘‘والا نظریہ درست ہوتا، تو پھر سوال پیدا ہوتا کہ صحابہؓ کے زمانے میں ملک کی حدود کیا تھیں؟کیا اس وقت ایسے واضح نقشے تھے جو بتاتے کہ کہاں تک چاند کی رویت مانی جائے گی اور کہاں نہیں؟ صحیح اصول:درحقیقت، کسی بھی ملک کے لیے روزہ رکھنے اور عید کرنے کی حدود یہ نہیں کہ وہ کسی سیاسی سرحد کے اندر ہیں، بلکہ اصل معیار یہ ہے کہ چاند کی رویت کی اطلاع کہاں تک پہنچتی ہے۔جو شخص چاند کی رویت کی خبر پاتا ہے، اس پر روزہ رکھنا اور عید کرنا واجب ہوجاتا ہے، اور جس تک خبر نہیں پہنچتی، اس پر نہیں۔ اعتراض: کچھ لوگ کہتے ہیں کہ ’’ہر ملک کے لیے الگ چاند‘‘کا نظریہ اس لیے اختیار کرنا چاہیے تاکہ ہر ملک کے مسلمان اپنے امام کے فیصلے پر عمل کریں اور اختلاف نہ ہو۔ جواب: اس میں کوئی شک نہیں کہ کسی ملک کے سیاسی نظم ونسق میں یکجہتی ضروری ہے، اور مسلمانوں کو اپنے امام کی اطاعت کرنی چاہیے تاکہ داخلی طور پر انتشار نہ ہو۔ لیکن یہ الگ چیز ہے، اور یہ کہنا کہ ہر ملک کے لیے چاند بھی الگ ہوگا، یہ الگ چیز ہے!پہلی بات (یعنی امام کی اطاعت)درست اور مطلوب ہے، لیکن دوسری بات(یعنی ہر ملک کے لیے الگ چاند)نہ شرعی طور پر صحیح ہے، نہ عقلی طور پر، اور نہ ہی فلکیاتی لحاظ سے اس کی کوئی حقیقت ہے۔ پانچواں نکتہ:مندرجہ بالا دلائل کی روشنی میں، تمام مسلمانوں کے لیے لازم ہے کہ جب بھی شرعی طور پر چاند کی رویت ثابت ہوجائے، وہ بلا تفریقِ سرحد و ملک اس کے مطابق روزہ رکھیں اور عید کریں۔ یہ دیکھنا ضروری نہیں کہ یہ چاند کس ملک میں دیکھا گیا، نہ یہ دیکھنا ضروری ہے کہ کسی کے پاس کون سا پاسپورٹ ہے! فصل سوم: ہلال کے ثبوت کے قطعی و یقینی طریقے یاد رہے کہ آج کل کے جدید علمِ فلکیات کی رو سے ہلال کا تعین شریعت کے خلاف نہیں ہے، بلکہ یہ اس دور کی ضرورت ہے۔ تمام علمائے امتِ محمدیہ ﷺ کا اس بات پر اتفاق ہے کہ 29ویں تاریخ کو ہلال دیکھو، اگر نظر نہ آئے تو 30 دن پورے کرو۔ آج تک کسی نے یہ نہیں کہا کہ 30 دن پورے کرکے بھی چاند دیکھو۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ گزشتہ ماہ کے چاند کے مکمل ہونے کا یقین ہو چکا ہوتا ہے اور نیا چاند شروع ہو چکا ہوتا ہے۔ لیکن اگر 29 دن پورے ہو جائیں، تو چاند نظر آنے کا امکان ہوتا ہے، اس لیے اس کے ثبوت کے طریقے مقرر کیے گئے کہ چاند دیکھا جائے، گواہیاں دی جائیں۔ اسی طرح ثبوتِ رؤیتِ ہلال کے لیے شریعت میں سات (7) طریقے بیان کیے گئے ہیں۔یہ قدرے سختی کیوں رکھی گئی؟ اس کی علت کیا ہے؟ اس کی واحد وجہ یہ ہے کہ یقین ہو جائے کہ گزشتہ چاند کا مہینہ ختم ہو گیا ہے اور نیا مہینہ شروع ہو چکا ہے۔ افواہوں کی بنیاد پر نہ روزہ رکھا جائے اور نہ ہی عید کی جائے۔ بلکہ یہ قطعی و یقینی ہو کہ نیا چاند’’ہلال‘‘کی شکل میں ظاہر ہو چکا ہے، تب ہی نئے مہینے کا آغاز کیا جائے۔قرآنِ مجید میں ارشاد ہے: هُوَ الَّذِیۡ جَعَلَ الشَّمۡسَ ضِیَآءً وَّ الۡقَمَرَ نُوۡرًا وَّ قَدَّرَہٗ مَنَازِلَ لِتَعۡلَمُوۡا عَدَدَ السِّنِیۡنَ وَ الۡحِسَابَ۔[سورۃ یونس: 5] وہی (اللہ) ہے جس نے سورج کو روشنی (کا منبع) بنایا اور چاند کو (اس سے) روشن (کیا) اور اس کے لیے (کم و بیش دکھائی دینے کی) منزلیں مقرر کیں تاکہ تم برسوں کا شمار اور (اوقات کا) حساب معلوم کر سکو۔ چاند کی حرکات اور منزلوں کا ذکر قرآنِ مجید میں موجود ہے۔ بلکہ’’منازل‘‘ کا ذکر کرنے کے بعد لِتَعۡلَمُوۡا عَدَدَ السِّنِیۡنَ وَ الۡحِسَابَ کا جملہ براہِ راست اس حقیقت کی نشاندہی کر رہا ہے کہ چاند کی منازل کا علم کیلنڈر تیار کرنے میں معاون ہے۔اسلام سے پہلے لوگ چاند اور ستاروں کو اپنے احوال کے ساتھ منسوب کرتے تھے۔ اسلام نے اس نظریے کی تردید کی۔ چاند گرہن کے بارے میں مفروضہ نظریات موجود تھے، اسلام نے ان کا خاتمہ کیا۔اسی طرح منجمین (ستاروں کی چال سے قسمت بتانے والوں) کی مذمت کی گئی، کیونکہ یہ عقیدہ توحید کے منافی تھا۔ وقت کے ساتھ ساتھ ترقی ہوئی۔ اس میں کوئی دوسری رائے نہیں کہ قدیم علماء نے ہلال کے اعلان کو علمِ حساب (فلکیاتی حساب) کی بنیاد پر کرنے سے منع کیا ہے۔ لیکن اس کی اصل وجہ کیا تھی؟ امامِ اہلِ سنت، امام احمد رضا خان رحمۃ اللہ علیہ کا ایک اقتباس پیشِ خدمت ہے، جس میں وہ جنتریوں کے بیان کا ذکر کرتے ہوئے اس مسئلے کی وضاحت کرتے ہیں۔ امام احمد رضا خان رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں: صحیح مذہب کے مطابق اہلِ توقیت کا قول معتبر نہیں، اگرچہ وہ عادل ہوں۔پھر اس کے بعد فرماتے ہیں کہ آج کل کی جنتریاں، جو عمومی طور پر ہندو اور دیگر غیر مسلم شائع کرتے ہیں، یا بعض نیچری (عقل پرست) نظریات رکھنے والے نام نہاد مسلمان، یا وہ مسلمان جو انہی ہندوانی جنتریوں کی پیروی کرتے ہیں، کیا یہ قابلِ التفات ہو سکتی ہیں؟فقیر نے گزشتہ 20 سالوں میں کئی مشہور جنتریاں دیکھیں، مگر ان میں بنیادی ہیئت (فلکیات) کی بہت سی خامیاں اور بڑی بڑی غلطیاں موجود ہوتی ہیں۔پھر یہ جنتری ساز لوگ بھی فلکیاتی حسابات کو مکمل طور پر نہیں سمجھتے۔ ان کی کیلنڈر سازی میں ایسی فاحش (بڑی) غلطیاں دیکھی گئی ہیں کہ ایک سمجھدار بچہ بھی ان میں نہ پڑے۔تو ان کی جنتری اور ان کی دوج اور پروا کی کسے پروا؟ [فتاویٰ رضویہ، جلد 10] یعنی امام احمد رضا خان رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں کہ صحیح اسلامی عقیدے کے مطابق ان لوگوں کی بات قابلِ قبول نہیں جو وقت (تاریخوں) کے حساب و کتاب میں مہارت کا دعویٰ کرتے ہیں، چاہے وہ کتنے ہی دیانت دار کیوں نہ ہوں۔ اس کے بعد وہ فرماتے ہیں کہ آج کل جو جنتریاں (کلینڈر اور زائچے) عام طور پر ہندو یا دیگر غیر مسلم شائع کرتے ہیں، یا پھر کچھ ایسے لوگ جو خود کو مسلمان کہتے ہیں مگر درحقیقت نیچری (عقل پرست) نظریات رکھتے ہیں، وہ بھی انہی ہندو جنتریوں کی نقل کرتے ہیں، تو ایسی جنتریوں پر کیسے بھروسہ کیا جا سکتا ہے؟ وہ مزید وضاحت کرتے ہیں کہ فقیر (یعنی امام احمد رضا خان خود) نے گزشتہ 20 سالوں میں کئی مشہور جنتریاں دیکھی ہیں، مگر ان میں بنیادی فلکیاتی حسابات میں بہت سی خامیاں اور بڑی بڑی غلطیاں موجود ہوتی ہیں۔ جنتری بنانے والے لوگ خود بھی فلکیاتی حسابات کو ٹھیک سے نہیں سمجھتے۔ ان کی کیلنڈر سازی میں ایسی فاش (بڑی) غلطیاں دیکھی گئی ہیں کہ ایک سمجھدار بچہ بھی ان میں نہ پڑے۔ تو ان کی جنتری اور ان کی تاریخوں پر بھروسہ کیوں کیا جائے؟ چاند کی رؤیت اور شریعت کا اصول: رسول اللہ ﷺ کی ظاہری زندگی میں 29ویں تاریخ کو چاند دیکھنے کا حکم تھا۔ اگر نظر آ گیا تو ٹھیک، ورنہ 30 دن پورے کیے جائیں گے۔اس کی وجہ خود رسول اللہ ﷺ نے بیان فرمائی: ہم ان پڑھ لوگ ہیں، لکھنا اور حساب کرنا نہیں جانتے۔ لہٰذا ہلال کا ثبوت آنکھ سے دیکھنے، یا اگر کسی دوسری جگہ دیکھا گیا ہو تو گواہی اور معتبر خبر پر رکھا گیا تاکہ یقین ہو جائے کہ نیا ہلال ظاہر ہوا ہے اور نیا مہینہ شروع ہو چکا ہے۔اس مسئلے پر عظیم سنی عالم ڈاکٹر مصطفیٰ الزرقا کی کتاب’’العقل والفقہ فی فہم الحدیث‘‘کا خلاصہ پیشِ خدمت ہے۔ مکمل آرٹیکل ہماری ویب سائٹ ’’عہدِ جدیدمیں فلکیاتی حساب سے اثباتِ ہلال کے بارے میں تحقیقی، تنقیدی، تفہیمی اور عصری اطلاقی جائزہ ‘‘پر موجود ہے: فلکیاتی حساب اور چاند کی رؤیت: فلکیاتی حساب کے ذریعے چاند کی پیدائش اور قمری مہینے کے آغاز کے مسئلے پر بحث ایک اہم شرعی معاملہ ہے۔ کیونکہ رمضان، عید، حج، عدت اور دیگر اسلامی احکام کا انحصار چاند کے نظر آنے پر ہوتا ہے، اس لیے یہ سوال اہمیت رکھتا ہے کہ کیا فلکیاتی حساب کو چاند کے تعین کے لیے استعمال کیا جا سکتا ہے یا نہیں؟ نبی کریم ﷺ نے فرمایا: جب چاند دیکھو تو روزہ رکھو، اور جب چاند دیکھو تو افطار کرو، اگر بادل چھا جائیں تو تیس دن مکمل کرو۔[بخاری و مسلم] یہ حدیث ان لوگوں کے لیے دلیل کے طور پر پیش کی جاتی ہے جو کہتے ہیں کہ قمری مہینوں کے آغاز کے لیے صرف آنکھ سے چاند دیکھنا ضروری ہے اور فلکیاتی حساب کی کوئی حیثیت نہیں۔ جدید فلکیاتی علوم اور رویتِ ہلال: جدید سائنس نے فلکیات میں بہت ترقی کر لی ہے۔ اب چاند کی پیدائش، اس کے طلوع اور غروب کا درست حساب منٹ اور سیکنڈ کی سطح تک معلوم کیا جا سکتا ہے۔پرانے زمانے میں فلکیاتی حساب غیر معتبر تھا، لیکن آج کے جدید آلات کے ساتھ یہ بالکل درست ہو چکا ہے۔ اگر آج سلفِ صالحین موجود ہوتے، تو وہ فلکیاتی حساب کے مطابق رویتِ ہلال کو قبول کر لیتے، کیونکہ اس وقت فلکیاتی حساب پر بھروسہ ممکن نہیں تھا، لیکن آج کے دور میں سائنس نے اس مسئلے کو حل کر دیا ہے۔ حدیث میں چاند دیکھنے کی علت (وجہ): نبی کریم ﷺ نے فرمایا: ’’ہم ایک ناخواندہ امت ہیں، نہ لکھتے ہیں، نہ حساب کرتے ہیں‘‘۔ یہاں نبی کریم ﷺ نے چاند دیکھنے کی وجہ بیان کی کہ عربوں کو نہ لکھنا آتا تھا نہ فلکیاتی حساب آتا تھا، اس لیے انہیں آنکھ سے دیکھنے کا حکم دیا گیا۔آج جب فلکیاتی حساب بالکل درست ہے، تو اسے نظر انداز کرنا شریعت کے مقصد کے خلاف ہوگا۔(کچھ علماء اس حدیث سے دلیل لاتے ہیں یہ حدیث علم الفلکیات سے ثبوت ہلال سے منع کرتی ہے۔ اگر یہ درست سمجھ لیں اس حدیث میں حساب کے ساتھ لکھنے کا ذکر بھی ہے۔ اگر لکھنا جائز ہو تو علم الفلکیات اور اس کا کیلنڈر کی ترتیب میں استعمال بھی جائز ہے۔ امام احمد رضا خان رحمۃ اللہ علیہ نے بھی فتاویٰ رضویہ میں لکھا ہے کہ :فان رسول اللہ صلی اللہ تعالی علیہ وسلم علل اسقاط اعتبار الحساب بانا امة امیة لانکتب ولا نحسب ۔ سالتمآب ﷺ نے حساب و کتاب کے اسقاط کی علت یہ بیان فرمائی کہ ہم امی لوگ ہیں نہ لکھتے ہیں نہ حساب کرتے ہیں۔(فتاوی رضویہ ،جلد 10،صفحہ 426 ) فلکیاتی حساب پر اعتماد کیوں ضروری ہے؟: رویتِ ہلال کے مسئلے پر ہر سال مسلمانوں میں اختلاف ہوتا ہے، جو انتشار اور پریشانی کا سبب بنتا ہے۔ جدید دور میں سفر، حج، ہوائی کمپنیوں کی پروازیں، اسکولوں کی چھٹیاں— سب کچھ قمری مہینوں سے جڑا ہوا ہے۔اگر پہلے سے معلوم ہو کہ رمضان اور عید کب ہوں گے، تو یہ زندگی کو منظم کرنے میں آسانی پیدا کرے گا۔نماز کے اوقات کے تعین کے لیے فلکیاتی حساب پر بھروسہ کیا جاتا ہے، تو پھر چاند کے لیے کیوں نہیں؟ کیا فلکیاتی حساب اور شریعت میں تضاد ہے؟: نہیں! فلکیاتی حساب اور شریعت میں کوئی تضاد نہیں، کیونکہ: • نبی کریم ﷺ نے چاند دیکھنے کا حکم اس وقت کی صورتِ حال کے مطابق دیا تھا، تاکہ لوگوں کو آسانی ہو۔ • آج کے دور میں فلکیاتی حساب چاند کے طلوع ہونے کے حقیقی وقت کو درست طور پر بتا سکتا ہے، اس لیے اس پر اعتماد کیا جا سکتا ہے۔ رویتِ ہلال اور غلط فہمیاں: رویتِ ہلال میں بہت سی غلط فہمیاں پیدا ہوتی ہیں۔ • کبھی لوگ چاند دیکھنے میں غلطی کر لیتے ہیں، جبکہ فلکیاتی حساب قطعی اور یقینی ہے۔ • بہت سے پرانے علماء بھی فلکیاتی حساب پر اعتماد کرتے تھے، جیسے مطرف بن عبداللہ (تابعی)، بعض حنفی، مالکی اور شافعی علماء۔ • یہ علماء بھی کہتے تھے کہ اگر فلکیاتی حساب قطعی ہو جائے، تو اس پر بھروسہ کیا جا سکتا ہے۔ اس دور میں فلکیاتی حساب پر انحصار کرنا ہی عقلمندی ہوگی، کیونکہ چاند کی رویت عبادت نہیں، بلکہ وقت معلوم کرنے کا ایک ذریعہ ہے۔اگر پرانے زمانے میں فلکیاتی حساب ممکن ہوتا، تو شریعت بھی اسی کو اختیار کرتی۔آج کے سائنس اور ٹیکنالوجی کے دور میں فلکیاتی حساب پر اعتماد کرنا شرعی طور پر جائز اور عقلی طور پر ضروری ہے۔ لہٰذا، جدید سائنسی ترقی کے ساتھ ہمیں فلکیاتی حساب کو رویتِ ہلال کے مسئلے کے حل کے طور پر اپنانا چاہیے، تاکہ امتِ مسلمہ میں اتحاد پیدا ہو اور غیر یقینی کی صورتِ حال ختم ہو سکے۔ ماضی کے علماء کا فلکیاتی حساب پر اعتماد نہ کرنے کے اسباب و وجوہات: علماء کی بڑی تعداد فلکیاتی حساب پر اعتماد نہیں کرتی، کیونکہ شریعت نے عبادات کے اوقات اور قمری مہینوں کے تعین کے لیے سادہ اور واضح علامات مقرر کی ہیں، جیسے کہ چاند کا نظر آنا، سورج کا غروب ہونا وغیرہ۔شریعت کا بنیادی اصول آسانی فراہم کرنا ہے، نہ کہ لوگوں کو مشقت میں ڈالنا۔ ماضی میں فلکیاتی حساب پر بھروسہ کیوں نہیں کیا جاتا تھا؟ابن حجر اور ابن بزیزہ کے مطابق، قدیم دور میں فلکیاتی حساب غیر یقینی اور اندازوں پر مبنی تھا۔امام نووی، ابن بطال، الزرقانی اور دیگر علماء نے بھی اسے غیر معتبر قرار دیا، کیونکہ اس دور میں فلکیاتی علم ظنی اور غیر مستند تھا۔ابن تیمیہ نے بھی کہا کہ فلکیاتی حساب ستارہ شناسی اور قسمت کے احوال جاننے جیسے علوم کے ساتھ جڑا تھا، جو اسلام میں ممنوع ہیں۔اس وقت کے علماء نے فلکیاتی حساب کو کیوں رد کیا؟ • اس وقت یہ علم قطعی اور حتمی نہیں تھا، بلکہ تخمین اور اندازوں پر مبنی تھا۔ • نجومی اور کہانت کرنے والے فلکیاتی حساب کو غلط استعمال کرتے تھے، جس کی وجہ سے اس پر بھروسہ کرنا مشکل تھا۔ • چاند دیکھنے کو ایک سادہ اور قابلِ فہم طریقہ سمجھا جاتا تھا، جبکہ فلکیاتی حساب اس وقت پیچیدہ اور ناقابلِ اعتماد تھا۔ جدید دور میں فلکیاتی حساب کی حقیقت: آج فلکیاتی حساب ظن وتخمین سے نکل کر قطعی سائنسی حقیقت بن چکا ہے۔جدید آلات چاند کے طلوع وغروب اور مہینے کی شروعات کو منٹ اور سیکنڈ کی درستگی کے ساتھ بتا سکتے ہیں۔یہ اب شعبدہ بازی یا قسمت کا حال بتانے جیسا علم نہیں رہا، بلکہ جدید سائنس کا ایک مستند شعبہ بن چکا ہے۔ کیا سلفِ صالحین آج ہوتے تو وہ اپنا موقف بدلتے؟: اگر آج ابن حجر، ابن بطال، ابن تیمیہ جیسے علماء موجود ہوتے، تو وہ جدید فلکیاتی تحقیقات کو ضرور قبول کرتے، کیونکہ ان کی مخالفت کی اصل وجہ اس علم کی غیر یقینی حیثیت تھی، جو اب ختم ہو چکی ہے۔نماز کے اوقات کے لیے بھی ہم فلکیاتی حساب پر بھروسہ کرتے ہیں، تو چاند کے تعین کے لیے کیوں نہیں؟ کیا فلکیاتی حساب اور شریعت میں تضاد ہے؟بالکل نہیں!نبی کریم ﷺ نے چاند دیکھنے کا حکم اس وقت کی صورتحال کے مطابق دیا تھا، کیونکہ لوگ فلکیاتی حساب سے واقف نہیں تھے۔اگر کوئی طریقہ زیادہ مستند اور قطعی ہو، تو اسے اختیار کرنے میں کوئی شرعی ممانعت نہیں۔آج کے دور میں چاند کی بصری رؤیت بعض اوقات مشکل ہو جاتی ہے، لیکن فلکیاتی حساب قطعی یقین فراہم کر سکتا ہے۔ نماز کے اوقات اور سائنسی تحقیق: یہ بڑی دلچسپ بات ہے کہ جب عباسی دور میں نمازوں کے اوقات بھی مشاہدے کی بجائے سائنسی تحقیق پر طے کیے گئے، تو متعدد علماء نے اس کے ناجائز ہونے پر کتابیں لکھیں۔ان کا نقطہ نظر یہ تھا کہ مکہ مکرمہ میں نماز فرض ہوئی، اور اس وقت سے بصری مشاہدے کے ذریعے ہی نمازوں کے اوقات کا تعین کیا جاتا تھا۔یہ سنت متواترہ تھی ۔جس کا آغاز مکی دور میں ہوا تھا۔ کئی علماء نے سائنسی اعتبار سے نمازوں کے اوقات کے تعین کے ناجائز ہونے پر کتابیں لکھیں، لیکن تقریباً 200 سال بعد اس بات پر اتفاق ہوا کہ سائنسی علوم کی مدد سے نمازوں کے اوقات کا تعین کرنا جائز ہے۔فقہِ مالکی کے مشہور علامہ قرافی کے دور میں ہلال کو علمِ فلکیات سے ثابت کرنے کی بات ہوئی، تو انہوں نے انکار کیا۔ پھر جب لوگوں نے سوال کیا کہ ہم نے مکی دورِ رسالت، خلفائے راشدین، تابعین اور تبع تابعین کے دور میں نمازوں کے اوقات کا تعین مشاہدے پر کیا تھا، اور بعد میں اس کو چھوڑ دیا، تو چاند کا اعلان علمِ فلکیات سے کیوں جائز نہیں؟تو انہوں نے یہ فرمایا: صلوٰۃ پنج گانہ کے وجوب کا سبب، ان کے مقررہ اوقات کا داخل ہونا ہے۔ ان اوقات کی طرف قرآنِ عظیم نے اپنے مخصوص انداز میں اشارہ کیا ہے، اور سنتِ نبوی ﷺ میں بھی ان اوقات کی طرف واضح اشارات موجود ہیں۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ قرآن و سنت نے صلوٰۃ پنج گانہ کے اوقات کی تعیین کی طرف اشارہ کیا ہے۔ اس سے واضح ہوتا ہے کہ صلوٰۃ پنج گانہ کے ان اوقات کو بہتر طریقے سے جو علم اور فن بھی ظاہر کر رہا ہوگا، اس کے اعتبار کرنے میں کوئی حرج نہیں ہے۔ کیونکہ نماز کا وجوب تب ہی ہوگا جب سبب موجود ہوگا، اور وہ سبب ہے وقت کا داخل ہونا۔ یہ پہلے سے موجود ہے، مگر اس کی تعیین فلکیاتی حساب سے یا پھر کسی اور سبب سے کرنے میں محض معاونت ملے گی، تو ایسی صورت میں یہ معتبر بھی ہے اور قابلِ اعتماد بھی ہے، تاکہ مقررہ وقت کا اثبات ہو سکے۔ صوم و افطار اور رؤیتِ ہلال: جہاں تک صوم و افطار کا معاملہ ہے، تو نبی کریم ﷺ نے اسے رؤیتِ ہلال سے منسلک کیا ہے۔ چنانچہ رسالت مآب ﷺ کا یہ قول اسی بات کی طرف اشارہ کرتا ہے: صُومُوا لِرُؤْيَتِهِ وَأَفْطِرُوا لِرُؤْيَتِهِ، فَإِنْ غُمَّ عَلَيْكُمْ فَأَتِمُّوا الْعِدَّةَ ثَلَاثِينَ۔[بخاری، مسلم] [أخرجه البخاري، كتاب الصوم، باب قول النبي ﷺ (إذا رأيتم الهلال فصوموا، وإذا رأيتموه فأفطروا))، برقم (1909). أخرجه مسلم، كتاب الصيام، باب وجوب صوم رمضان لرؤية الهلال، والفطر لرؤية الهلال، وأنه إذا غم في أوله أو آخره أكملت عدة الشهر ثلاثين يوما، برقم (1081).] جب تم چاند دیکھو تو روزہ رکھو، اور جب تم چاند دیکھو تو افطار کرو! اور اگر تم پر بادل ہوں، تو تیس دن کی گنتی پوری کرو۔ صوم و افطار کا حقیقی سبب: یعنی جس طرح نماز کا سبب شرعی وقت کا دخول ہے، اسی طرح صوم و افطار کا سبب شرعی رؤیتِ ہلال ہے، نہ کہ صرف رمضان المبارک کے مہینے کا آغاز یا اس کا مکمل ہونا۔لہٰذا یہ واضح ہوتا ہے کہ بصری رؤیتِ ہلال کے بغیر کسی بھی دوسرے ذریعے سے، جس میں فلکیاتی حساب و کتاب بھی شامل ہے، روزہ کے وجوب کا سبب نہیں بنے گا۔ بلکہ صوم و افطار کا سبب شرعی رؤیتِ ہلال ہے۔ یہی وجہ ہے کہ اگر کسی نے چاند دیکھنے سے پہلے روزہ رکھا، تو اس کا روزہ رمضان المبارک کا شمار نہیں ہوگا، کیونکہ اس نے عبادت کو اس کے سبب کے داخل ہونے سے پہلے ہی ادا کر لیا۔یہ بالکل ایسے ہی ہوگا جیسے کوئی شخص طلوعِ آفتاب کے فوراً بعد ظہر کی نماز ادا کر لے، حالانکہ ابھی اس کا شرعی وقت داخل نہیں ہوا۔اسی طرح صوم و افطار کا سبب شرعی رؤیتِ ہلال ہے۔جب تک رؤیتِ ہلال ثابت نہ ہو، تب تک رمضان المبارک کا روزہ بھی درست نہیں ہوگا۔ علامہ زرقا اس موقف کے بارے میں فرماتے ہیں: امام مالک علیہ الرحمۃ کی شان و شوکت اور ان کی علمی قدر و منزلت کے باوجود، جب انہوں نے اپنی عظیم الشان، رفیع المقام کتاب کی تکمیل کر لی اور اسے لوگوں تک پہنچا دیا، تو اس وقت فرمایا: ہم میں سے کوئی بھی شخص جب اس کلام کے دفاع میں کچھ بھی جواب دیتا ہے، تو اس کا مطلب یہ ہے کہ وہ اس صاحبِ قبر کا جواب دے رہا ہے۔ اس سے مراد رسول اکرم ﷺ کی قبر کی طرف اشارہ کرنا مقصود تھا، اور بتانا یہ مطلوب تھا کہ ہماری تمام تر علمی جدوجہد، درحقیقت رسول اکرم ﷺ کے دین کا دفاع ہی ہوتی ہے۔ اسی وجہ سے اگر ہم یہاں امام قرافی علیہ الرحمۃ کی آراء کا جائزہ لے رہے ہیں، یا پھر ان کی فقہی قدر و منزلت کے باوجود ان سے اختلاف کر رہے ہیں، تو اس کا یہ مطلب ہرگز نہیں ہے کہ ہم ان سے کوئی انفرادی اختلاف رکھتے ہیں۔ بلکہ ہم محض دین کے دفاع میں یہ سب کچھ کر رہے ہیں، اور ہم یہاں جو فرق امام قرافی علیہ الرحمۃ نے بیان کیا ہے، اس کا مناقشہ (بحث و تجزیہ) کر رہے ہیں تاکہ حق واضح ہو سکے۔ اصول الفقہ میں سبب اور اس کی اقسام: یہاں سب سے پہلے ایک بنیادی تمہید کو سمجھنا ضروری ہے، جس کا تعلق اصولِ فقہ کی ابتدائی بحث سے ہے۔ اس تمہید میں سبب اور اس کی اقسام کا ذکر کیا گیا ہے۔اگر ہم سبب کی بات کریں، تو اس کا بنیادی اور عمومی مفہوم یہ ہے: سبب ہر وہ امر، معاملہ یا واقعہ ہے جو کسی دوسرے امر کے ساتھ اس طرح جڑا ہو کہ اگر پہلا موجود ہو، تو دوسرا بھی موجود ہوگا، اور اگر پہلا معدوم ہو جائے، تو دوسرا بھی معدوم ہو جائے گا۔ پس، پہلے کو سبب اور دوسرے کو، جو اس پر مرتب ہو رہا ہے، مسبب کہتے ہیں۔ سبب کی بنیادی اقسام:سبب کی بنیادی طور پر تین اقسام ہیں:سببِ طبعی،سببِ شرعی، سببِ جعلی۔ 1. سببِ طبعی:وہ سبب ہے جس پر قوانینِ طبعیہ کا حکم مرتب ہوتا ہے، مثلاً:آگ کو چھونا جلانے کا سبب ہے، یعنی جیسے ہی کوئی شخص آگ کو چھوئے گا، تو وہ لازمی طور پر جلے گا۔زمین کی کشش اجسام کے نیچے گرنے کا سبب ہے۔اسی طرح دیگر کئی مثالیں طبیعی دنیا میں موجود ہیں۔ 2. سببِ شرعی:وہ سبب ہے جسے شارع علیہ السلام نے سبب قرار دیا ہے، اور اس پر شرعی حکم مرتب ہوتا ہے۔یہ حکم مکلفین پر اس وقت لازم ہوتا ہے جب وہ سبب موجود ہو۔سببِ شرعی کی سب سے واضح مثال نمازِ پنجگانہ کے اوقات ہیں، کیونکہ یہی اوقات ان نمازوں کے شرعی سبب ہیں۔اگر شارع نے حکم نہ دیا ہوتا، تو یہ اوقات اسباب بھی نہ بنتے۔لہٰذا، شارع کے حکم کی وجہ سے ان اوقات کو سبب کی حیثیت دی گئی ہے۔ 3. سببِ جعلی:وہ سبب ہے جسے انسان اپنے ارادہ و اختیار سے سبب بناتا ہے، مثلاً:کسی نے نذر مانی کہ "جب اللہ تعالیٰ مجھے فلاں بیماری سے شفا کاملہ دیں گے، تو میں غرباء کے لیے کوئی جانور ذبح کروں گا۔یہاں بیماری سے شفایابی بذاتِ خود ذبیحہ کا سبب نہیں ہے، بلکہ انسان نے اپنے ارادے و اختیار سے اسے سبب بنایا ہے۔یعنی، اس نے خود ہی اپنے اوپر لازم کیا کہ بیماری سے شفا یاب ہونے کے بعد ذبیحہ کرے گا۔یہ تب ہی لازم ہوگا جب اس کا سبب (یعنی بیماری سے شفایابی) موجود ہوگا۔ سبب اور اس کی اقسام کی مختصر مگر جامع تمہید کے بعد ہم کہتے ہیں: یقیناً علامہ امام قرافی علیہ الرحمۃ نے اپنی تحقیق میں نمازوں اور روزوں کے سببِ شرعی کے درمیان فرق کو واضح کرنے کی کوشش کی ہے۔انہوں نے بتایا ہے کہ جس طرح اوقاتِ نماز کا دخول اس کا سبب ہے، اسی طرح رؤیتِ ہلال، دخولِ رمضان المبارک کا سبب ہے۔ اس عبارت میں امام قرافی کا دعویٰ ہے کہ صوم کے وجوب کا شرعی سبب رؤیتِ ہلال ہے، نہ کہ رمضان المبارک کے مہینے کا داخل ہونا۔جس طرح نمازوں کے اوقات کا داخل ہونا نماز کا سبب ہے، اسی طرح ان کے نزدیک رمضان کا دخول بذاتِ خود سبب نہیں، بلکہ رؤیتِ ہلال ہی رمضان کا سببِ شرعی ہے۔ امام قرافی علیہ الرحمۃ کا یہ دعویٰ کسی بھی طرح تسلیم نہیں کیا جا سکتا، حالانکہ درست بات یہ ہے کہ صلوٰۃ پنجگانہ اور صوم کے اسباب میں کوئی خاص فرق نہیں ہے۔بلکہ دونوں کا سببِ شرعی محض وقت کا داخل ہونا ہے۔ • جس طرح پانچ نمازوں کے اوقات کا داخل ہونا ان کے وجوب کا سببِ شرعی ہے، • اسی طرح رمضان المبارک کے مہینے کا دخول و حلول ہی رمضان کے روزوں کے وجوب کا سببِ شرعی ہے۔ جبکہ امام قرافی علیہ الرحمۃ نے رؤیتِ ہلال کو ہی سببِ شرعی قرار دیا ہے، حالانکہ رؤیتِ ہلال، صوم و افطار کے لیے سببِ شرعی نہیں ہے۔ اگر ایسا ہوتا تو:  جب بادلوں، دھند یا کسی اور عارضی سبب کی وجہ سے چاند نظر نہ آئے، یا رؤیت ممکن نہ ہو، تو مسلمانوں پر شعبان کے تیس دن مکمل کرنا لازم نہ ہوتا۔  ایسی صورت میں صوم کا سببِ شرعی موجود نہیں ہوتا، اور وہ سبب (امام قرافی کے مطابق) رؤیتِ ہلال ہے۔  پس جب تک سبب موجود نہیں، تو مسبب کیسے متحقق ہوگا؟ اور سبب کے بغیر مسبب کا پایا جانا ممکن نہیں۔  یہاں سے یہ واضح ہوتا ہے کہ صوم کے وجوب کا سببِ شرعی رؤیتِ ہلال نہیں ہے۔ حدیثِ نبوی اور امام قرافی کے موقف کی نفی:رسالت مآب ﷺ کا یہ فرمان: اگر تم پر ابر آلود ہو تو تیس کی گنتی پوری کر لو۔[بخاری، مسلم] امام قرافی کے موقف کو رد کر دیتا ہے، کیونکہ اگر صوم کے وجوب کا سبب رؤیتِ ہلال ہوتا، تو تیس دن مکمل کرنے کے بعد رمضان کا آغاز نہیں ہونا چاہیے تھا۔جب تیس کی گنتی مکمل کرنے پر صومِ رمضان واجب قرار دیا جا رہا ہے، تو یہ ثابت کرتا ہے کہ رؤیتِ ہلال، صوم کے وجوب کا سببِ شرعی نہیں۔ اگر چاند بادلوں اور دھند کی وجہ سے نظر نہ آئے تو کیا صومِ رمضان واجب نہیں ہوگا؟یقینی طور پر واجب ہوگا، کیونکہ تیس دن مکمل کرنے کے بعد نیا مہینہ شروع ہو چکا ہوگا۔قمری مہینے تیس دن سے زیادہ نہیں ہوتے، اس لیے جیسے ہی تیس دن مکمل ہوں گے، رمضان المبارک کا مہینہ شرعی طور پر داخل ہو جائے گا، چاہے چاند نظر آئے یا نہ آئے۔ یہ ثابت کرتا ہے کہ صومِ رمضان کے وجوب کا سبب ’’دخولِ وقتِ صوم‘‘ہے، نہ کہ رؤیتِ ہلال۔تیس کی گنتی مکمل ہوتے ہی رمضان المبارک کا آغاز ہو جاتا ہے، چاہے چاند نظر آئے یا نہ آئے۔اب یہ بات واضح ہو گئی کہ رؤیتِ ہلال، صومِ رمضان کے وجوب کا سببِ شرعی نہیں ہے، بلکہ رمضان المبارک کے مہینے کا دخول و حلول ہی روزے کے وجوب کا حقیقی سبب ہے۔ صومِ رمضان اور صلوٰۃ پنجگانہ کے اسباب میں وہ فرق نہیں جو امام قرافی نے بیان کیا ہے، بلکہ ان کے بیان کردہ فرق سے کئی اشکالات اور اعتراضات جنم لیتے ہیں، جن کی وضاحت پہلے گزر چکی ہے۔ ہمارے موقف پر مزید ایک قرآنی دلیل: ہمارے موقف پر یہ آیت بھی دلالت کر رہی ہے، چنانچہ ارشادِ باری تعالیٰ ہے: فَمَنْ شَهِدَ مِنْكُمُ الشَّهْرَ فَلْیَصُمْهُ[سورۃ البقرۃ: ۱۸۵] پس تم میں سے جو کوئی یہ مہینہ پائے، تو ضرور اس کے روزے رکھے۔ اس آیت میں’’شُهُودُ الشَّهْرِ‘‘سے مراد اس مہینے میں موجود ہونا ہے، نہ کہ اس کا مشاہدہ کرنا۔یعنی اگر کوئی شخص رمضان المبارک میں مسافر نہ ہو، بلکہ اپنے گھر یا کسی ایسی جگہ موجود ہو جہاں روزہ چھوڑنے کا کوئی شرعی عذر نہ ہو، تو اس پر روزہ فرض ہوگا۔ یہ آیت اس بات کی صریح دلیل ہے کہ صومِ رمضان کا سببِ شرعی رمضان المبارک کے مہینے کا داخل ہونا اور حلول ہے، نہ کہ صرف رؤیتِ ہلال۔ یہ نہیں کہا گیا کہ اگر کسی نے چاند دیکھ لیا تو اس پر روزہ فرض ہو جائے گا، بلکہ مہینے کے آغاز پر روزہ فرض ہوتا ہے۔ رؤیتِ ہلال کا اصل مقام: اس ساری تحقیق سے یہ مقدمہ پختہ ہو گیا ہے کہ رؤیتِ ہلال، رمضان المبارک کے مہینے کی آمد کی محض علامت اور وسیلہ ہے۔یہ صرف یہ بتانے کے لیے آتی ہے کہ رمضان المبارک کا مہینہ داخل ہو چکا ہے، جیسے: • نمازِ پنجگانہ کے اوقات یہ بتانے کے لیے آتے ہیں کہ فلاں نماز کا وقت داخل ہو چکا ہے۔ • اسی طرح رؤیتِ ہلال بھی محض ایک ذریعہ ہے، یہ رمضان المبارک کے روزے کا سببِ شرعی نہیں ہے۔ فلکیاتی حساب اور اس کا شرعی اعتبار: اس سے یہ بھی واضح ہوتا ہے کہ فلکیاتی حساب و کتاب کے قدیم و جدید ذرائع، یا کوئی بھی ایسا طریقہ جو حتمی طور پر مہینے کی آمد اور اختتام کو متعین کر دے، اور جس میں کسی قسم کا شک، تردد، عیب، یا ظن و تخمین نہ ہو، بلکہ قطعیت اور یقین حاصل ہو رہا ہو، تو اس کا اعتبار کیا جائے گا۔ایسی صورت میں تمام احکام میں اس کا نہ صرف اعتبار ہوگا، بلکہ مذکورہ تصریحات کی روشنی میں یہ قابلِ اعتماد بھی ہوگا۔ اسی لیے جدید فلکیاتی حساب و کتاب کی رعایت، صوم و افطار کے ساتھ ساتھ حج اور دیگر شرعی احکام و معاملات میں کرنے میں بھی کوئی فرق و امتیاز نہیں ہے۔ بلکہ:جس طرح وقت کا دخول تمام نمازوں کے لیے سببِ شرعی ہے، اسی طرح رمضان المبارک کا دخول بھی روزے کے وجوب کا سببِ شرعی ہے۔رؤیتِ ہلال سببِ شرعی نہیں ہے۔[شیخ زرقا کا کلام مکمل ہوا] ایک خاص حوالہ: جو علماء جدید علمِ فلکیات سے ہلال کے تعین کو غیر شرعی سمجھتے ہیں، ان کے لیے ایک خاص حوالہ:میں اس بحث کو فقہِ حنفی کی مشہور کتاب ’’اللباب في الجمع بين السنة والكتاب‘‘امام أبو محمد علي بن زكريا المنبجي، المتوفیٰ 686 ھ) کے ذریعے مکمل کرتا ہوں۔یہ کتاب فقہِ حنفی کے مسائل میں وارد احادیث کے معانی و مطالب کی وضاحت کے لیے لکھی گئی ہے۔ کتاب الصیام کی فصل: [باب: إذا غم هلال رمضان كملت عدة شعبان ثلاثين يوما]’’جب رمضان کا چاند نظر نہ آئے، تو شعبان کے تیس دن مکمل کر لیے جائیں‘‘۔پھر اس کے بعد امام المنبجي نے درج ذیل حدیث ذکر کی: عن محمد بن زياد قال: سمعت أبا هريرة رضي الله عنه يقول: قال النبي صلى الله عليه وسلم: ’’صوموا لرؤيته، وأفطروا لرؤيته، فإن غم عليكم فأكملوا عدة شعبان ثلاثين‘‘۔[بخاری و مسلم] محمد بن زیاد بیان کرتے ہیں کہ میں نے حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ کو یہ کہتے ہوئے سنا کہ نبی کریم ﷺ نے فرمایا: چاند دیکھ کر روزہ رکھو اور چاند دیکھ کر افطار (عید) کرو، اور اگر تم پر (چاند) مخفی ہو جائے (بادلوں یا کسی اور وجہ سے نظر نہ آئے)، تو شعبان کے تیس دن مکمل کرو۔ اسی طرح عبد اللہ بن عمر رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے رمضان کا ذکر کرتے ہوئے فرمایا: تم اس وقت تک روزہ نہ رکھو جب تک کہ چاند نہ دیکھ لو، اور اس وقت تک افطار (عید) نہ کرو جب تک کہ چاند نہ دیکھ لو، اور اگر تم پر (چاند) مخفی ہو جائے تو اس کے لیے اندازہ کر لو۔[صحیح بخاری و مسلم] ابو محمد علي بن زكريا المنبجي حنفی رحمت اللہ علیہ نے اس حدیث کو ذکر کرنے کے بعد اس کی تشریح میں فرمایا: غم عليكم: يعني استتر، من قولك: غممت الشيء إذا سترته وغطيته فهو مغموم.وقوله: فاقدروا له: ذهب بعض العلماء إلى أن المراد به التقدير بحساب القمر في المنازل، أي اقدروا له منازل القمر فإنه يدلكم على أن الشهر تسعة وعشرون أو ثلاثون قال بعض أهل العلم: وهذا خطاب لمن خصه الله بهذا العلم، وقوله: فأكملوا العدة ثلاثين يوما للعامة. والله أعلم۔ ’’غم عليكم‘‘کا مطلب ہے’’چاند چھپ جائے‘‘،یعنی اگر وہ بادلوں یا کسی اور چیز کی وجہ سے نظر نہ آئے۔یہ عربی زبان کے محاورے ’’غممت الشيء‘‘(میں نے کسی چیز کو چھپا دیا) سے ماخوذ ہے، جس کا مطلب ہوتا ہے کسی چیز کو چھپانا اور ڈھانپنا۔پس جو چیز چھپا دی جائے، اسے "مغموم" کہا جاتا ہے (یعنی وہ چیز جو پوشیدہ ہو یا ڈھکی ہوئی ہو)۔ ’’فاقدروا له‘‘کے بارے میں بعض علماء کا کہنا ہے کہ اس کا مطلب چاند کی منازل کے حساب سے اندازہ لگانا ہے، یعنی:چاند کی منازل کو دیکھو، وہ تمہیں بتا دے گا کہ مہینہ 29 دن کا ہوگا یا 30 دن کا۔کچھ اہلِ علم کا کہنا ہے کہ یہ خطاب ان لوگوں کے لیے ہے جنہیں اللہ نے اس علم سے نوازا ہے (یعنی وہ لوگ جو فلکیات اور چاند کی منازل کے بارے میں علم رکھتے ہیں۔جبکہ ’’فأكملوا العدة ثلاثين يوما‘‘ (تو تیس دن مکمل کرو) عام لوگوں کے لیے ہے، تاکہ وہ شک و شبہ سے بچ سکیں۔ واللہ أعلم۔ مفتیِ اعظم مصر، شیخ علی جمعہ کا فتویٰ (10 دسمبر 2011ء): مفتیِ اعظم مصر، شیخ علی جمعہ نے فلکیاتی حساب اور جدید سائنسی ذرائع سے قمری مہینوں کے آغاز کے تعین کے جواز اور ہمارے عہد میں اس کی ضرورت پر 10 دسمبر 2011ء کو ایک فتویٰ جاری کیا، جو کہ ہماری یوکے اینڈ یورپ ہلال فورم کی ویب سائٹ پر موجود ہے۔ اس میں وہ لکھتے ہیں:ہجری (قمری) مہینے کو جاننے کے طریقے،رویت، اس کی بنیادیں اور نتائج، لوگوں کے لیے آسانی یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ نے معمول کے فلکیاتی مظاہر کو نماز، روزہ، افطار اور شرعی قمری مہینوں کے داخلے کے اوقات میں رہنمائی کے لیے نشانیاں بنا دی ہیں۔ قمری مہینے کے داخلے کو جاننے کے دو طریقے ہیں: پہلا طریقہ: بصری طریقہ:اس میں چاند کو پچھلے مہینے کی انتیس تاریخ کو غروبِ آفتاب کے بعد مغربی افق پر دیکھا جاتا ہے، اور یہ نماز کے اوقات کی علامات کی طرح ہے، جو سورج کی زمین کے گرد ظاہری حرکت سے متعلق ہیں۔مثال کے طور پر، ظہر کے وقت میں داخل ہونے کی علامت یہ ہے کہ سورج، جگہ کے خطِ زوال پر تھوڑا سا جھک جائے، جیسا کہ قرآنِ کریم میں ارشاد ہوتا ہے: أَقِمِ ٱلصَّلَوٰةَ لِدُلُوكِ ٱلشَّمۡسِ إِلَىٰ غَسَقِ ٱلَّيۡلِ وَقُرۡءَانَ ٱلۡفَجۡرِۖ إِنَّ قُرۡءَانَ ٱلۡفَجۡرِ كَانَ مَشۡهُودًا۔[سورۃ الإسراء: 78] اسی طرح:عصر کا وقت:جب کسی چیز کا سایہ اس کے برابر ہو جائے۔مغرب کا وقت:جب سورج کی ڈسک کا اوپری کنارہ افق کے نیچے غائب ہو جائے۔عشاء کا وقت: جب شام کی سرخ روشنی ختم ہو جائے۔فجر کا وقت: جب صبح کی سچی روشنی (یعنی فجرِ صادق) ظاہر ہو۔ مفتیِ اعظم مصر، شیخ علی جمعہ کے فتوے میں دوسرا طریقہ حساب کا طریقہ ہے، جو اس صورت میں اختیار کیا جاتا ہے جب کسی موسمی رکاوٹ کی وجہ سے انتیسویں کے غروبِ آفتاب کے بعد چاند دیکھنا ممکن نہ ہو، جیسے بادل، دھند، دھواں، شام کی روشنی کی شدت، اور چاند کا سورج کے غروب ہونے کے مقام کے قریب ہونا۔ اس طریقے کے دو طریقے ہیں: یا تو بادل چھانے پر مہینہ تیس دن مکمل کرنے کے لیے عددی حساب، یا چاند کے مراحل کا حساب۔ اگر حساب سے یہ ثابت ہو جائے کہ چاند غروبِ آفتاب کے بعد افق کے اوپر موجود ہے، لیکن موسمی حالات یا دیگر رکاوٹیں اس کی رؤیت میں مانع ہیں، تو اس وقت روزہ رکھنا واجب ہوگا، کیونکہ وجوب کی وجہ موجود ہے، اور وہ افق پر چاند کے طلوع ہونے کا علم ہے۔ لیکن اگر حساب سے یہ معلوم ہو کہ بادلوں کی موجودگی کے باوجود، غروبِ آفتاب کے بعد چاند افق پر ظاہر نہیں ہوگا، کیونکہ وہ پہلے ہی غروب کر چکا ہے، تو مہینہ تیس دن مکمل کر لیا جائے گا۔ لہٰذا، اگر یہ معاملہ شعبان کے آخر میں ہو، تو بادل کے دن روزہ رکھنا جائز نہیں ہوگا، اور اگر یہ رمضان کے آخر میں ہو، تو روزہ توڑنا جائز نہیں ہوگا، کیونکہ اس بات کا غالب امکان ہے کہ چاند بادلوں کے پیچھے موجود ہی نہیں ہے۔ یہی موقف امام ابوالفتح محمد بن علی القشیری المنفلوطی المالکی الشافعی المعروف ابن دقیق العید نے اختیار کیا ہے، جو اجتہاد کے درجے تک پہنچے ہوئے علماء میں شمار کیے جاتے ہیں۔ وہ 625 ہجری میں حجاز کے ساحل پر واقع ینبع میں پیدا ہوئے اور 702 ہجری میں قاہرہ میں انتقال کر گئے۔ ابن دقیق العید اپنی کتاب "شرح العمدة" (2/8) میں فرماتے ہیں: وأما إذا دل الحساب على أن الهلال قد طلع من الأفق على وجه يُرَى لولا وجود المانع -كالغيم مثلًا- فهذا يقتضي الوجوب؛ لوجود السبب الشرعي، وليس حقيقة الرؤية بشرط من اللزوم؛ لأن الاتفاق على أن المحبوس في المطمورة إذا علم بإكمال العدة، أو بالاجتهاد بالأمارات أن اليوم من رمضان وجب عليه الصوم وإن لم يَرَ الهلال ولا أخبره من رآه. اور اگر حساب اس بات کی نشاندہی کرتا ہے کہ چاند افق سے اس طرح طلوع ہوا ہے کہ اگر کوئی رکاوٹ نہ ہو، تو اسے دیکھا جا سکتا ہے - جیسے بادل - تو اس کے لیے وجوب ضروری ہوگا، کیونکہ شرعی سبب (یعنی چاند کا طلوع ہونا) موجود ہے۔رؤیتِ ہلال کی حقیقت لازم و ملزوم کی شرط نہیں ہے، کیونکہ اس بات پر اجماع ہے کہ اگر کوئی شخص کسی قید خانے میں ہو، اور اسے عدت پوری ہونے کا علم ہو جائے، یا اجتہاد کے ذریعے رمضان کے دن کی علامات سے اندازہ لگا لے، تو اس پر روزہ واجب ہوگا، اگرچہ اس نے چاند نہ دیکھا ہو اور نہ ہی کسی دیکھنے والے نے اسے اطلاع دی ہو۔ اور علماء نے اس مذہب کی تائید میں بہت سی تحقیقات کی ہیں، اور حدیث شریف میں حساب سے روزہ رکھنے کی اجازت دینے والوں کی تردید نہیں ہے، کیونکہ حساب نے مہینے کو کبھی انتیس اور کبھی تیس ہونے سے باہر نہیں نکالا، جیسا کہ شیخ السبکی نے اپنے "فتاویٰ" میں فتویٰ دیا ہے۔ اور جیسے ہم نماز میں پہلے سے حساب کیے گئے اوقات پر بھروسہ کرتے ہیں اور اپنی کلائیوں یا دیوار کی گھڑیوں کو دیکھتے ہیں، بغیر سورج کی پوزیشن کو آسمان پر دیکھے، اور بغیر ان فلکیاتی مظاہر کی براہ راست تلاش کیے جو نماز کے اوقات کے آغاز کی نشاندہی کرتے ہیں، اسی طرح ہم قابل اعتماد حسابات کے ذریعے چاند کی موجودگی یا عدم موجودگی کا اندازہ لگا سکتے ہیں، جنہیں قابل اعتماد فلکیاتی حسابات اور کیلکولیٹر انجام دیتے ہیں۔ اسی فتویٰ میں مفتیِ اعظم مصر، شیخ علی جمعہ لکھتے ہیں: مصر کے دار الافتاء کا طریقہ کار قمری مہینے کے آغاز کو ثابت کرنے کے لیے یہ ہے کہ دار الافتاء مصر، رسول کریم ﷺ کی حدیث میں سنتِ شریف پر عمل کرنے کی ضرورت پر اپنے ایمان کے ذریعے کام کرتا ہے:’’روزہ رکھو جب تم اسے دیکھو‘‘۔۔۔۔مختلف کمیٹیاں تشکیل دی جاتی ہیں جو مصر کے دس مقامات پر چاند کی تلاش کرتی ہیں:حلوان، القطامیہ، ، السلوم، قنا، اسوان، الواحات، توشکی، مرسى علم اور سانت کیتھرین۔ ہر کمیٹی قومی ادارہ برائے فلکیاتی تحقیق کے ایک فلکیات دان، دار الافتاء کے ایک شرعی اسکالر، چاند کی تلاش کے مقامات پر اہلِ مسجد کے ائمہ، سروے اتھارٹی کے ایک رکن، اور بعض اوقات قاہرہ اور الازہر یونیورسٹیوں کی سائنس فیکلٹیز کے فلکیات کے ماہرین پر مشتمل ہوتی ہے۔ اس طرح عادل گواہ کے چار نکات حاصل ہوتے ہیں، جو فلکیاتی حسابات سے رہنمائی لیتے ہیں، جو جدید ٹیکنالوجی کے دور میں قطعی ہو چکے ہیں، جبکہ بصری رؤیت اب قیاس آرائی بن چکی ہے۔ یہ آلودگی کے ان حالات کی وجہ سے ہے جو آج کرۂ ارض کے مختلف افقوں پر ایک مستقل مسئلہ بن چکے ہیں، خاص طور پر مغربی افق کے علاقے میں، جہاں بادلوں کی موجودگی، فضائی آلودگی، اور مصنوعی روشنیوں کی زیادتی رؤیتِ ہلال کو مشکل بنا دیتی ہے۔ اس کے ساتھ ساتھ، کچھ جدید انسانی رویے، جیسے پرتعیش اشیاء کے غیر ضروری استعمال، اوزون کی تہہ کو نقصان پہنچانے والے عوامل، جو اللہ تعالیٰ نے انسان اور دیگر مخلوقات کو سورج کی مضر بالائے بنفشی (UV) شعاعوں سے محفوظ رکھنے کے لیے بنائی تھی، بھی چاند دیکھنے کے عمل میں رکاوٹ بن رہے ہیں۔ لہٰذا، ہم نے جدید اور سائنسی انداز میں سنتِ شریف کی پیروی کی ہے، جو ان تکنیکوں کے استعمال کی اجازت دیتی ہے تاکہ مسلمانوں کے لیے صحیح شریعت کے فیصلے کرنے کے لیے علم کے اسباب کو اختیار کیا جا سکے۔ دنیا بھر کے تمام مسلمانوں کے لیے قمری مہینوں کے آغاز کو متحد کرنے کا مسئلہ ایک دیرینہ اور اہم معاملہ ہے۔ قمری مہینوں کے آغاز کے چاند کا مشاہدہ کرنے کے لیے تجویز کردہ ’’عرب اسلامی چاند‘‘ایک ایسا منصوبہ ہے جس نے اپنی عمل درآمد کے مراحل میں ایک بڑا قدم طے کر لیا ہے۔ اس پر سنجیدہ مطالعات کی گئی ہیں اور اس کے بہت سے پہلوؤں پر اتفاق کیا جا چکا ہے، اور اب اس کے لیے سبسکرپشن جاری ہے تاکہ اس کے لیے ضروری مالی اعانت کو یقینی بنایا جا سکے اور ان اقمار کی کئی نسلوں کو لانچ کیا جا سکے۔ اس چاند کے ذریعے مصنوعی سیارے پر نصب دوربین کے ذریعے چاند کا مشاہدہ کیا جاتا ہے۔ یہ دوربین عرب مہینے کی انتیسویں تاریخ کو افق کی طرف ہدایت کی جاتی ہے، جو کہ زمین کی سطح پر موجود مبصر کے افق کے ساتھ ہم آہنگ ہوتی ہے اور بادلوں یا دیگر موسمی رکاوٹوں سے آزاد ہوتی ہے۔ اگر چاند افق کے اوپر موجود ہو، تو اس کی تصویر عام ٹیلی ویژن اسکرینوں پر براہِ راست نشر کی جاتی ہے، تاکہ تمام ناظرین اسے اپنی آنکھوں سے دیکھ سکیں۔ مصنوعی سیارہ تقریباً ڈیڑھ گھنٹے میں زمین کے گرد اپنا چکر مکمل کرتا ہے اور اس کا ایک حصہ غروبِ آفتاب کے بعد بہت سے عرب اور اسلامی ممالک کے افق پر گزرتا ہے، جس سے ان کے ٹیلی ویژن اسکرینوں پر قدرتی چاند کا مشاہدہ ممکن ہو جاتا ہے۔ اس منصوبے کے نفاذ میں دو عوامل رکاوٹ ہیں: • پہلا: سائنسی – جو کہ مختلف مطالع کے مسئلے کو حل نہیں کر رہا ہے۔ • دوسرا: داخلی – جہاں کچھ شریعت کے علماء جدید ٹیکنالوجی کے استعمال پر اعتراض کرتے ہیں، اور ننگی آنکھ سے بصری مشاہدے پر اصرار کرتے ہیں، جو مسلمانوں کے اتحاد کی راہ میں رکاوٹ بن رہا ہے۔ ہم اللہ تعالیٰ سے دعا کرتے ہیں کہ وہ مسلمانوں کو متحد کرے اور انہیں حق پر جمع فرمائے۔ خلاصہ کلام: نص (نصوص) سے مراد وہ الفاظ اور عبارات ہیں جو قرآن و سنت میں کسی حکم یا مسئلے کے بیان کے لیے استعمال کیے گئے ہیں۔ فقہ اسلامی میں "نص" کو بنیادی شرعی دلائل میں سب سے زیادہ مستند اور معتبر ذریعہ سمجھا جاتا ہے۔ نص کی تین اقسام 1. نص قطعی (نص صریح و قطعی الدلالہ) یہ وہ نص ہوتی ہے جو ثبوت اور دلالت دونوں اعتبار سے قطعی ہو، یعنی: ثبوت کے لحاظ سے: قرآن مجید یا حدیث متواتر سے ثابت ہو، جس میں کسی قسم کا شبہ یا ظن نہ پایا جاتا ہو۔ دلالت کے لحاظ سے: اس کا مفہوم واضح اور غیر مبہم ہو، اور کسی بھی طرح کے تاویل کی گنجائش نہ ہو۔ مثال: اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے: وَأَقِيمُواالصَّلَاةَوَآتُواالزَّكَاةَ نماز قائم کرو اور زکوٰۃ ادا کرو نص قطعی کا منکر کافر ہے ۔ اور جو نص قظعی کا منکر نہ ہو لیکن اس کے خلاف جائے تو وہ فاسق و فاجر ہے۔ 2. نص مطلق یہ وہ نص ہوتی ہے جو کسی قیود (شرائط یا تخصیصات) کے بغیر عمومی طور پر بیان کی گئی ہو۔ یعنی کسی اضافی قید کے بغیر کسی چیز کا حکم دیا گیا ہو۔ مثال: اللہ تعالیٰ کا فرمان: فَتَحْرِيرُرَقَبَةٍ(المجادلة: ایک غلام کو آزاد کرنا 3۔نص معلل : یہ وہ نص ہوتی ہے جس میں حکم کی علت (وجہ) واضح طور پر بیان کی گئی ہو، تاکہ اس علت یا سبب کے ساتھ کے ساتھ حکم کو جوڑا جا سکے اور وہ سبب لفظی ہو یا معنوی ہو۔ جو علماء جدید علم الفلکیات سے ہلال کے تعین کو غیر شرعی سمجھتے ہیں، وہ رویت کے حکم کو نص قطعی سمجھتے ہیں ۔ جبکہ رویتِ ہلال کے حوالے سے جتنی بھی احادیث آئی ہیں، وہ سب نصِ معلّل (علت پر مبنی نصوص) ہیں۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ اگر ان تمام احادیث کو ایک ساتھ دیکھا جائے تو یہ معلوم ہوتا ہے کہ چاند دیکھنے کا جو حکم دیا گیا ہے، اس کا اصل مقصد چاند کے ہونے کا قطعی اور یقینی علم حاصل کرنا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ نبی کریم ﷺ نے فرمایا: "انتیس کو چاند دیکھو، اگر وہ نظر نہ آئے تو تیس دن مکمل کرو۔" اس حدیث کا واضح مفہوم یہی ہے کہ اگر چاند نظر آ جائے تو مہینہ مکمل ہو جاتا ہے، اور اگر چاند نظر نہ آئے تو مہینہ تیس دن مکمل کر لیا جائے، تاکہ قمری مہینے کی قطعیت ثابت ہو جائے۔ اسی طرح ایک اور حدیث میں آتا ہے: فَاقْدِرُوا لَهُ (پس اس کے لیے حساب کرو امام ابن بطال نے اس جملے کے متعلق لکھا ہے کہ یہ مجمل (غیر واضح) ہے، یعنی اس میں کوئی ایسا حکم بیان کیا گیا ہے جو تفصیل کا محتاج ہے۔ یہی وجہ ہے کہ علماء کرام اس کی وضاحت میں دو گروہوں میں تقسیم ہوئے: 1. ایک گروہ کا کہنا ہے کہ "فَاقْدِرُوا لَهُ" کا مطلب یہ ہے کہ چاند کے حساب و کتاب کو مدنظر رکھا جائے، یعنی فلکیاتی حسابات کی بنیاد پر چاند کی موجودگی کا اندازہ لگایا جائے۔ 2. دوسرا گروہ یہ کہتا ہے کہ اس کا مطلب یہ ہے کہ اگر چاند نظر نہ آئے تو مہینے کے تیس دن مکمل کیے جائیں۔ اسی اصول پر فقہاء نے یہ مسئلہ بھی بیان کیا ہے کہ اگر تیسواں دن ہو اور آسمان پر بادل ہوں یا بارش کی وجہ سے چاند نظر نہ آئے، تو بھی مہینہ تیس دن مکمل تصور کیا جائے گا، کیونکہ تیس دن پورے ہونے کے بعد چاند کی موجودگی قطعی طور پر ثابت ہو جاتی ہے، چاہے آنکھ سے نہ بھی دیکھا جا سکے۔قطعیت اور عبادات کا تعلق ہمارے فقہاء نے اپنی کتابوں میں یہ اصول بیان کیا ہے کہ عبادات کا تعلق قطعیت (یقینی علم) سے ہوتا ہے۔ مثال کے طور پر: • جب قطعی طور پر معلوم ہو جائے کہ نماز کا وقت داخل ہو چکا ہے، تب ہی نماز ادا کی جاتی ہے۔ • اسی طرح جب یقینی علم حاصل ہو جائے کہ چاند نظر آ گیا ہے، تو روزہ رکھنا یا عید کرنا واجب ہو جاتا ہے۔ فقہ میں یومِ شک (مشکوک دن) کا روزہ رکھنے سے منع کیا گیا ہے۔ اس کی وجہ یہی ہے کہ عبادات کو انجام دینے کے لیے قطعی علم ضروری ہے۔ جب تک کسی چیز کا یقینی علم نہ ہو، اس پر کسی حکم کا اطلاق نہیں ہو سکتا۔ ہلال کا ثبوت کن ذرائع سے ہو سکتا ہے؟ چہلال کے وجود اور مہینے کے آغاز کا یقینی علم کئی طریقوں سے حاصل ہو سکتا ہے، جیسے: 1. رویتِ ہلال (چاند دیکھنے) سے 2. شہادت (گواہی) سے 3. خبرِ معتبر (معتبر ذرائع کی اطلاع) سے 4. استفاضہ ( کا مطلب کسی چیز کا اتنی کثرت سے مشہور اور معروف ہونا کہ اس میں جھوٹ اور غلطی کا امکان نہ رہے۔ یہ اصطلاح عام طور پر رویتِ ہلال، شہادت، اور تواتر کے اصول میں استعمال کی جاتی ہے۔) سے 5. قدیم علمِ فلکیات سے 6. جدید آسٹروفزکس (Astrophysics) کے سائنسی اصولوں سے اگر کسی بھی مستند اور معتبر ذریعہ سے قطعی علم حاصل ہو جائے کہ ہلال دنیا کے کسی کونے میں بھی نمودار ہو چکا ہے، تو اس کے مطابق روزہ رکھنا اور عید منانا شرعاً واجب ہو جاتا ہے۔ جیسا کہ ہم پہلے کہہ چکے ہیں کہ نبی رحمت ﷺ وسلم ، صحابہ و تابعین اور بعد میں عباسی کے وسط تک نمازوں کے أوقات بھی آنکھ سے دیکھ کر روازانہ کی بنیاد پر طے کیے جاتے تھے۔ جب عباسیوں کے دور میں نمازوں کے أوقات کا تعین علم الفلکیات سے طے ہوا۔ تو اس کی بہت مخالفت ہوئی ۔ علماء اس کی مخالفت پر بھی کتابیں لکھیں ۔علماء کرام بتایا کہ سنت کی اصل نمازوں کے أوقات کا حقیقی علم ہے خواہ وہ کسی ذریعہ سے ہو۔ اور درست ہو۔ اسی طرح ہجری مہینہ کے آغاز کا تعلق ہلال کے طلوع ہونے کے یقینی علم سے ہے ۔ امام راغب اصفہانی نے اپنی کتاب المفردات فی غریب القرآن میں لکھا ہے کہ : الشُّهُودُ والشَّهَادَةُ" کا مطلب ہے: حاضر ہونا اور مشاہدہ کرنا، یا تو بصارت (آنکھوں سے دیکھنے) کے ذریعے یا بصیرت (دل یا عقل کی آنکھ سے سمجھنے) کے ذریعے، پھر فرماتے ہیں کہ قرآن میں ارشاد ہے ،لِمَ تَكْفُرُونَ بِآياتِ اللَّهِ وَأَنْتُمْ تَشْهَدُو([آل عمران/70) اس آیت میں شہود، علم کا معنی میں ہے ۔ تم اللہ کی واضح آیات کا علم کے باوجود کفر کیوں کرتے ہو۔ یعنی: تم اللہ کی آیات کا انکار کیوں کرتے ہو، حالانکہ تم جانتے ہو؟ تو یہی معنی شہود کا ہے کہ اگر یہ علم ہو کہ ہلال نمودار ہوا ہے لیکن کسی وجہ سے نظر نہیں آرہا ہے تو یہی علم روزہ کی فرضیت کا سبب ہے اور جو احادیث میں چاند دیکھنے کا بار بار حکم ہے وہ اس علم کے یقینی حصول کے لیے ہے۔ جدید علم الفلکیات اس پر کبھی غلطی نہیں کرتا ۔ خلاصہ اگر کسی بھی ذریعہ سے ہلال کے نمودار ہونے کا قظعی ، یقینی علم ہو جائے تو روزہ فرض ہوتا ہے خواہ وہ آنکھ سے ہو جدید آسٹرونومی سے ہو۔فقہاء کرام نے یہ لکھا ہے کہ یوم شک کے دن صبح صادق سے لیکر زوال تک نہ کھائیں اگر اس دوران کہیں سے ثبوت ہلال کی مصدقہ خبر آجائے تو روزہ رکھیں ورنہ کھا لیں ۔آج کل آبزرویٹری سے یہ مکمل اطلاع مل جاتی ہے کہ کس ملک میں رات کو افق پر ہلال طلوع ہوگا۔ اور یہ یقینی علم کے باوجود محض عدم رویت کی بنیاد پر روزہ ترک کرنا جائز نہیں۔ ہمارے تجربے میں یہ بات سامنے آ چکی تھی کہ چاند کی خبر لینے کے لیے مسالک کی بحث، پھر کذب کی تہمت اور دیگر کئی خرابیاں دیکھنے میں آئیں کہ فلاں وہابی ہے، فلاں دیوبندی ہے، فلاں سعودیہ سے پیسے لیتا ہے ،مضحکہ خیز تہمتیں دیکھنے میں آئیں۔ بسا اوقات، برطانیہ، مراکش، ساوتھ افریقہ میں چاند نظر نہ آیا، لیکن دیگر افریقی ممالک میں چاند ننگی آنکھ سے نظر آیا اور وہاں اعلان بھی ہوا، لیکن برطانیہ میں روزہ نہیں رکھا گیا کیونکہ فارمولا اجازت نہیں دیتا تھا۔ مثلاً، اگر شرعی اصول کے مطابق رمضان کا آغاز 2 اپریل کو کیا گیا، لیکن یہ بات ثابت تھی کہ چاند ایک رات پہلے کہیں نظر آ چکا تھا، تو اس صورت میں روزے کی قضا واجب ہوگی۔ یوکے و یورپ ہلال فورم کے اعلان کا طریقہ یہ ہے کہ اس کے علماء نے 1984ء سے 2019ء تک ہلال کے تعین کے تمام فارمولوں کا جائزہ لیا۔ ان کی خوبیوں اور خامیوں سے سیکھا، اور ان ممالک کے طریقہ کار کا بھی مطالعہ کیا جو علم الفلکیات پر انحصار کرکے اعلان کرتے ہیں، جیسے ترکی، ملائشیا اور مصر۔ اس تحقیق کے بعد 7 سال کی محنت کے نتیجے میں 2022ء میں درج ذیل اصول طے کیے گئے: 1. گلوبل مون سائٹنگ (Global Moon Sighting) کے اصول کو استعمال کرتے ہوئے، برطانوی صبح صادق سے پہلے پوری دنیا میں جہاں بھی علم الفلکیات کی رو سے چاند ننگی آنکھ یا دوربین سے نظر آنے کے قابل ہوگا، وہاں سے نیا مہینہ شروع ہوگا۔ اس کے لیے برطانوی آبزرویٹری (British Observatory) کے ڈیٹا کا استعمال کیا جائے گا۔ حتمی طور پر طے پایا کہ:جمہور فقہاء حنفی، مالکی اور حنبلی علماء کے نزدیک اختلافِ مطالع معتبر نہیں، الّا یہ کہ بعد فاحش ہو (یعنی دن رات کا واضح فرق ہو)۔ لہٰذا ایشیا، یورپ، افریقہ، اور امریکہ میں جہاں بھی ہلال کی موجودگی آبزرویٹری کے اعتبار سے ثابت ہوگی، اسے قبول کیا جائے گا۔چونکہ ہلال کا اعلان آبزرویٹری سے ہوگا، اس لیے برطانوی آبزرویٹری کے فراہم کردہ ڈیٹا کو استعمال کیا جائے گا۔ اس میں چاند کے نظر آنے یا نہ آنے کے چھ (6) کوڈز ہوتے ہیں: A, B, C, D, E, F۔ اگر کوڈ A تا C ہوں، تو اگلے دن نیا مہینہ شروع ہوگا۔ کوڈز کی وضاحت: A:چاند ننگی آنکھ سے نظر آئے گا۔ B:اگر موسمی حالات سازگار ہوئے، تو چاند ننگی آنکھ سے نظر آ سکتا ہے۔ C :چاند ننگی آنکھ سے نظر آ سکتا ہے، لیکن ممکن ہے کہ دوربین کی ضرورت پڑے۔ اللہ تعالیٰ کی بارگاہ میں دعا ہے کہ ہمارے اس اخلاص کو قبول فرمائے۔ آمین۔ واللہ اعلم بالصواب۔ ہم نے اخلاص کے ساتھ اپنی پوری کوشش کی ہے کہ درست فیصلہ ہو، اللہ قبول فرمائے۔ ✍️ تحریر و تحقیق: حافظ مفتی محمد فیض رسول نقشبندی

Add new comment

Plain text

  • No HTML tags allowed.
  • Lines and paragraphs break automatically.
  • Web page addresses and email addresses turn into links automatically.